وطن نیوز انٹر نیشنل

مستقبل کی سپرپاورکون؟..سمیع اللہ ملک

امریکااورچین کے درمیان فائیوجی ٹیکنالوجی اوردنیاکے وائرلیس انفراسٹرکچرپرکنٹرول کی لڑائی جاری ہے۔تاہم دنیاکی معیشت اورتحفظ سےمتعلق ایک اہم معاملے پربہت کم توجہ دی جارہی ہے۔یہ معاملہ ڈیجیٹل معیشت کیلئےضروری معدنیات پرچین کے کنٹرول کاہے۔ کوئی بھی نیافون،ٹیبلیٹ،گاڑی یاسیٹلائیٹ کچھ مخصوص معدنیات کےبغیرنہیں بن سکتے۔ یہ معدنیات دنیاکے کچھ ہی ممالک میں پائےجاتےہیں اوران کےگنےچنےمتبادل ہی دستیاب ہیں۔چینی کمپنیوں نےشفاف اور اکثر سیاسی طورپرغیرمستحکم ممالک کی منڈیوں میں ان معدنیات اوردھاتوں کی فراہمی پرکنٹرول حاصل کرلیاہے۔ اس کام کیلئے انھوں نےبڑےپیمانےپرکی گئی چینی سرمایہ کاری کابھی استعمال کیاہے۔ان کمپنیوں کی رپورٹوں کے گہرائی سے مطالعےاوردیگر ذرائع سے تحقیق کےبعدFP Analyticsنے معدنیات کی عالمی مارکیٹ پراس غیرمعمولی قبضےکےحوالےسےپہلی جامع رپورٹ تیارکی ہے۔حقائق پرمبنی اس رپورٹ سے معلوم ہوتاہےکہ چین کس تیزی اورموثرطریقے سے اپنے قومی عزائم کوپوراکررہاہے اوراس کے باقی دنیاپرکس قسم کےاثرات مرتب ہورہے ہیں۔
چین نےاپنےتیرہویں پانچ سالہ منصوبے(2016ء)کوNonferrousدھاتوں کی صنعت کے حوالے سےفیصلہ کن جنگ کادورکہا ہے۔اس منصوبے کاایک اہم حصہ “میڈان چائنہ2025″پروگرام بھی ہے۔اس کامقصدقومی دفاع،سائنس اورٹیکنالوجی کےشعبے میں صنعت کاری کوبڑھانا ہے۔ان مقاصدکے حصول کیلئےاکتوبر2016ءمیں چین کی وزارت صنعت نے چین کودھاتوں کی صنعت میں عالمی طاقت بنانےکیلئےلائحہ عمل کااعلان کیا۔اس کام کیلئےچین معدنیات سے زرخیزخطوں میں سرکاری اورنجی کمپنیوں کو بھیج رہاہے تاکہ ان ممالک کے معدنی وسائل پرگرفت مضبوط کی جاسکے ۔ ان معدنی وسائل میں وہ معدنیات بھی شامل ہیں جن میں چین پہلےہی ایک مستحکم پوزیشن رکھتاہے۔
چین نے اس کام کیلئےنہایت مناسب وقت کاانتخاب کیا۔2011ءسے2015ءکے دوران دھاتی اشیاکی قیمتوں میں آنے والی کمی سے کان کنی کی بہت سی کمپنیاں سرمائے کے متعلق پریشان تھیں۔یہاں تک کہ Angola Americanجیسی بڑی کمپنی کو بھی افرادی قوت اوراثاثوں میں کمی کرناپڑی ۔ چینی کمپنیوں نے کانوں کی براہ راست خریداری،دیگرکمپنیوں میں حصص کے حصول،کانوں کی موجودہ اورمستقبل کی پیداوارکوخریدنےکےمعاہدوں اورنئے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کی شکل میں کان کنی کی کمپنیوں کوان کی ضرورت کاسرمایہ مہیاکیااورخودمعدنیات کی عالمی پیداوارپرکنٹرول حاصل کر لیا۔
اگرچہ چین میں کافی معدنیات پائی جاتی ہیں،تاہم چین کوکوبالٹ،پلاٹینئیم گروپ کی دھاتوں اورلیتھیئم جیسی معدنیات کےفقدان کا سامناہے۔یہ ٹیکنالوجی کےحوالےسے چین کےعزائم کیلئےاہم ہیں۔چین نے ان معدنیات پرکنٹرول کیلئےدوطرح کی حکمت عملیاں اختیارکی ہیں۔ایک حکمت عملی یہ ہے کہ حکومتی ملکیت والی کمپنیوں یعنیState Owned Enterprises (SEOs) کومتحرک کیا جائے،جوحکومتی امداداورسرمایہ کاری کااستعمال کرتے ہوئےخودکودیگرممالک میں مضبوط کریں اورحکومتی افرادکےساتھ مراسم پیداکریں۔دوسری حکمت عملی ان ہی مقاصدکےحصول کیلئےنجی کمپنیوں کے استعمال کی ہے۔اپنی اس حکمت عملی کی وجہ سے چین معدنیات کےاس کھیل میں دنیاسےدس سال آگےہے۔رواں سال جون میں کانگومیں ہونے والی ایک کانفرنس میں53چینی کمپنیوں نےUnion of Mining Companiesکے قیام کااعلان کیا۔ یہ دراصل چینی صنعت کاروں اورکانگوکی حکومت کےدرمیان اس گہرے اوردیرپاتعلق کااعلان تھا،جوگزشتہ سالوں میں قائم ہوا۔
چین اس وقت کانگوسے نکلنے والے کوبالٹ کے نصف حصے پراپناکنٹرول رکھے ہوئےہے۔صدارتی انتخابات سے چھ مہینے قبل ہونے والی اس کانفرنس نےصدارتی امیدواروں کوواضح پیغام دیاکہ کوبالٹ کی صنعت پرچین کس قدرکنٹرول رکھتاہے۔یہاں اس بات کاذکربھی ضروری ہےکہ کانگوکی 80فیصدمعیشت کاانحصارکوبالٹ پرہے۔
دنیامیں کوبالٹ کی کل پیداواراورمعلوم ذخائرکادوتہائی حصہ کانگومیں ہے،جس وجہ سے یہ بیٹری کی صنعت سے منسلک سرمایہ کاروں کیلئےایک اہم ملک ہے۔اسی وجہ سے چین نےگزشتہ ایک دہائی میں سیاسی تعلقات کےفروغ اورپیداواری انفرا اسٹرکچرمیں سرمایہ کاری کے ذریعے یہاں اپنی پوزیشن مضبوط کی ہوئی ہے۔2007ء میں چین کےExport-Import Bankنےانفراسٹرکچر کی مدمیں6/ارب ڈالر(جوبعدمیں3/ارب ڈالر کر دیےگئے)تانبےاورکوبالٹ کی کان کنی کیلئے3/ارب ڈالر فراہم کیے۔یہ پراجیکٹ Sinohydro اورChina Railway Groupکے تحت چلائے جارہے ہیں۔ان کمپنیوں کے پاس تانبے اورکوبالٹ کی کان Sicomine کے86فیصدحصص ہیں۔یہ کان افریقاکی سب سےبڑی کانوں میں سےایک کان ہے۔چین نے کانگوکی سرکاری کمپنی Gécamines کی بحالی،صنعتی شعبے کے استحکام اورملازمت کے مواقع پیداکرنے کے وعدے سے کانگوکاخودپرانحصاربڑھالیاہے۔
کانگوکی قرضوں میں ڈوبی ہوئی کمپنیوں کوٹارگٹ کرکے چین کی سرکاری کمپنیوں نےکانوں میں حصص حاصل کیےاوراپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ان کانوں میںTenke Fungurumeنامی کان بھی شامل ہے،جہاں اعلیٰ قسم کےتانبےاورکوبالٹ کےدنیاکے بڑے ذخائر میں سے ایک موجودہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چین نےکانگوکی10بڑی کانوں اور6ترقیاتی منصوبوں کی ملکیت حاصل کرلی ہے۔چین نےکانگواوردنیاکی کوبالٹ پیداکرنےوالی سب سےبڑی کان میں بھی حصص حاصل کرلیےہیں۔اس کی وجہ سےکانگومیں کوبالٹ کی کل پیداوارکے52فیصدپرچین نےاپنااثر ورسوخ قائم کرلیاہے۔
دنیامیں کوبالٹ کی بڑھتی ہوئی مانگ کے سبب کانگوکےسابق صدرجوزف کابیلہ نےکان کنی کے قانون میں تبدیلی کی اور منافع پر 50فیصدٹیکس عائدکردیا۔اس کےعلاوہ انہوں نے کوبالٹ پرRoyalty Taxکوبھی تین گناکردیاہےتاکہ اس سےحکومتی منافع میں اضافہ ہو۔ہمسایہ ملک زیمبیامیں بھی اسی قسم کےٹیکس کےبارے میں سوچاجارہاہے۔
سرکاری ملکیت کی کمپنیوں کواستعمال کرنے کی چین کی حکمت عملی افریقامیں خاص کامیاب رہی ہے۔اس کی وجہ یہ ہےکہ کان کنی کی صنعت میں جاری معاشی بدحالی میں ان کمپنیوں کولوگوں نےامیدکی ایک کرن کے طورپردیکھا۔ان کمپنیوں نے China -Africa Development Fundکے اشتراک سے خودکوجنوبی افریقاکےBushveld Complexتک پھیلالیاہے ۔ اس خطےمیں دنیا کااعلیٰ ترین وینڈئیم اورپلاٹینئیم پایاجاتاہے۔پلاٹینئیم گاڑیوں کےکیٹیلیٹک کنورٹرمیں استعمال ہوتاہے ، جوگاڑیوں سے نکلنے والے خطرناک دھوئیں کوصاف کرتاہے۔وینڈیئم ہائی ٹیک صنعتوں،دفاعی صنعت،خلابازی کی صنعت اورقابل تجدیدتوانائی کے شعبوں کیلئےایک انتہائی اہم اورلازمی دھات ہے۔اس خطے میں چین کی سرمایہ کاری اورطویل مدتی معاہدوں کی وجہ سے جنوبی افریقا کی کل برآمدات میں معدنیات کاحصہ سب سےزیادہ ہوگیاہے اورمعدنیات کی کل برآمدات کا50فیصد حصہ چین جاتاہے۔اس وجہ سے جنوبی افریقاکی معاشی بحالی بھی اب براہ راست چینی سرمایہ کاری سےجڑی ہوئی ہے۔
چین جمہوری اورMarket-Orientedملکوں میں نجی ملکیت کی چینی کمپنیوں کااستعمال کررہاہے،جنہیں حکومتی سرمایہ مہیاکیا جاتا ہے۔ یہ کمپنیاں مقامی کمپنیوں میں حصص حاصل کرتی ہیں اورچھوٹے کاروباری لوگوں کی سرپرستی کرتی ہیں۔نجی ملکیت کی کمپنیوں کواستعمال کرنے کی حکمت عملی آسٹریلیا ، ارجنٹینااورچلی میں واضح طورپرکامیاب ہوتی ہوئی نظرآتی ہے۔ان تین ممالک میں دنیاکا90فیصد لیتھیم پیداہوتاہےاوران ہی تین ممالک میں دنیامیں لیتھیم کے معلوم ذخائرکاتین چوتھائی حصہ بھی موجود ہے۔صرف6سالوں میں چین نےلیتھیم کی مارکیٹ پرغلبہ حاصل کرلیاہےاوراب وہ لیتھیم کے59فیصدذخائرپراپنی گرفت رکھتاہے۔
چین کے سرکاری بینکوں کےسرمائےسےچین کی دوبڑی کمپنیاںTianqi LithiumاورGanfeng Lithiumدنیامیں لیتھیم پیدا کرنے والی تیسری بڑی کمپنیاں بن گئی ہیں۔ان دونوں کمپنیوں نےدیگرچینی اداروں کےساتھ مل کراپنی سرمایہ کاری اورکام کو پھیلانے کیلئےچلی کی کمپنیوں میں حصص حاصل کیے،ارجنٹینامیں ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی اورآسٹریلیامیں کانوں کی خریداری اورپروسیسنگ پلانٹ میں سرمایہ کاری کی۔
2018ءکےابتدامیںTianqi Lithium نے چلی کی ایک کمپنیSQMکے24فیصدحصص حاصل کیے۔یہ کمپنی دنیامیں لیتھیم پیدا کرنے والی دوسری بڑی کمپنی ہے۔دنیامیں پائےجانےوالےلیتھیم کےذخائرکا57فیصدحصہ چلی میں پایاجاتاہے،ان میں سےآدھے ذخائرکاکنٹرول SQM کے پاس ہے۔SQMکے حصص حاصل کرنےکی ڈیل معدنیات کی صنعت میں اب تک کی سب سےبڑی ڈیل ہے،جو1ء4 ارب ڈالرمیں انجام پائی۔
چلی کی حکومت نے ہمیشہ ملک کےلیتھیم کےذخائرپرسخت کنٹرول رکھاہےکیوںکہ یہ ملک کےجوہری پروگرام کیلئےاہم ہے، لیکن چینی کمپنی کوحصص کی فروخت نے اس معاملےمیں شکوک پیداکردیے ہیں۔اگرچہ اصل ڈیل میںTianqiکےبورڈکوSQM کے حساس ڈیٹاتک رسائی سے روکا گیاہے، تاہم اب بھی یہ چینی کمپنیSQMپرخاطرخواہ اثررسوخ رکھتی ہے۔
ارجنٹیناکےصدرنےملک میں معدنیات کی برآمدات پرعائدٹیکسوں میں کمی کافیصلہ کیاہے۔یہاں چین معدنیات کےشعبے میں سرمایہ کاری کررہاہےاور بدلے میں مستقبل میں نکلنے والے لیتھیم کےحصول کےمعاہدےکررہاہے۔چینی کمپنیوں کےپاس ارجنٹینامیں جاری معدنی منصوبوں کے41فیصد حصص ہیں۔ان منصوبوں میں ارجنٹیناکےکل ذخائرکا37فیصدشامل ہے۔اس پالیسی کے ثمرات بھی سامنے آناشروع ہوگئےہیں۔ ارجنٹیناسے چین کوہونے والی لیتھیم کی برآمدات میں”2015ءسے2017ء کے دوران چارگنااضافہ ہواہے۔یہی پالیسی آسٹریلیامیں بھی کامیاب رہی۔مذکورہ دونوں چینی کمپنیوں نےآسٹریلیامیں جاری لیتھیم کی کان کنی کےمنصوبوں میں91فیصدحصص اورلیتھیم کےذخائرکے75فیصدپرکنٹرول حاصل کیاہواہے۔
عالمی منڈی کےوہ وسائل جن پرچین کی اجارہ داری ہے،اب چین ان پربھی اپنے کنٹرول کومزیدسخت کرنےکیلئےاقدامات کررہا ہے۔چین ایسےقدرتی وسائل میں نہ صرف خودکفیل ہےبلکہ اس کےپاس یہ معدنیات وافرمقدارمیں ہیں،جیساکہ دنیابھرکی وہ10 معدنیات اوردھاتیں جومقدارمیں سب سے کم ہیں اورہائی ٹیک صنعت کیلئےکلیدی حیثیت رکھتی ہیں وہ بھی وافرمقدارمیں ہیں اور یہی وہ دھاتیں ہیں جن پرچین کےکمرشل اورتزویراتی حریف انحصارکرتے ہیں۔اپنےکنٹرول کومزیدمستحکم کرنے کیلئےچینی کمپنیاں نہ صرف ان دھاتوں کی کانوں کی خریداری کررہی ہیں بلکہ ان کی پیداوارکی خریداری بھی بڑے پیمانے پرکررہی ہیں، جس سے چین کوہائی ٹیک صنعت میں سبقت حاصل ہوجائےگی بلکہ اس کی جیوپولیٹیکل طاقت میں بھی اضافہ ہوگا۔
شایدمعدنی وسائل پراپنےغلبےکوبرقراررکھنےاورنادرواہم کیمیائی عناصرکودریافت کرنے کی خواہش کےاعتبارسے چین کی مثال نہایت موزوں ہے۔71ایسے مشہورکیمیائی عناصرجنہیں باآسانی تجارتی بنیادوں پردستیاب کیاجاسکتاہےلیکن چین دانستہ ایسانہیں کر رہا۔یہ سارے عناصردفاعی سازوسامان،خلابازی،برقیات اورقابل تجدید توانائی کی صنعتوں کیلئےاہم ہیں ۔گزشتہ دودہائیوں میں چین نے ان اہم کیمیائی عناصرکی کل پیداوارکا 80فیصدنکالااوران معدنیات کوصاف کیاہے۔2010ء میں چین نے جاپان کوان کیمیائی اشیا کی فراہمی میں تخفیف کردی تھی،جس کی وجہ چین کےمشرقی سمندرمیں کشیدگی کی فضاکاپیداہوناتھا۔اس کےاگلےہی سال چین نے ایکسپورٹ کوٹہ نافذکردیا،جس سےصنعتی اداروں اورحکومتوں میں افراتفری پیداہوگئی لیکن جاپان کےسِوادیگرممالک نے اس باروقتی اقدامات توکیےلیکن مستقبل کےحوالےسے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی۔1990ءمیں چین نےRare Earth Elementsکوتزویراتی وسائل قراردے کراس شعبےمیں غیرملکی سرمایہ کاری پرپابندی لگادی۔
6سرکاری کمپنیاں اس ساری صنعت پرمکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔2018ءمیں حکومت نے اس کی پیداوارمیں63فیصدکمی کر دی۔جب کہ دوسری طرف ان معدنیات کی مانگ میں2025ءتک71فیصداضافہ ہوگا۔اسی طرح چین دیگرملکی معدنیات پر بھی مکمل کنٹرول کیےہوئےہے۔چینی کمپنیاں تیزی سےدیگرممالک میں بھی ان معدنیات کی کانیں خریدرہی ہیں۔اسی طرح روس بھی اس شعبےمیں غیرملکی سرمایہ کاری کومحدودکرتاجارہاہے۔اس کے برعکس امریکاکیRare Earth Elementsکی درآمدات میں مستقل اضافہ ہو رہاہے۔صرف2018ءمیں امریکانے160ملین ڈالرکی درآمدات کی ہیں۔اگرچہ ٹرمپ نے اس معاملے پرکچھ احکامات جاری کیے، لیکن اس پرمزیدکام نہیں ہوسکاہے۔اس کےبرعکس چینی کمپنیاں تیزی سے دنیابھرکی کمپنیوں سےشراکت داریاں کررہی ہیں اور چین نےبحیثیت ریاست اس پربھرپورتوجہ دے رکھی ہے۔جس سےچین کی جیوپولیٹیکل طاقت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
وسائل کی ان اقسام پرکنٹرول قائم کرنے سے چین کواس بات کااندازہ ہوجائےگاکہ آیاوہsemiconductorکی صنعت پر سبقت لے جانےسےوہ اس صنعت میں بھی مرکزی حیثیت حاصل کرلےگا۔ہائی ٹیک انڈسٹری کےلازمی جزوکےطورپراستعمال ہونےوالی معدنیات پرچین کاکنٹرول تقریباً مکمل ہو چکاہے۔اس انڈسٹری میں مزیدترقی کیلئےجن معدنیات کی ضرورت ہے ،ان سات میں سے چھ پرچین کا57فیصدکنٹرول ہے۔تاہم چین کےپاس اس صنعت کی صف اول کی کمپنیوں جیسے semiconductorتیارکرنے کی صلاحیت کااب بھی فقدان ہےاور چین اب بھی تقریباً260ارب ڈالران کی درآمدات پرخرچ کر رہاہے۔حکومت اپنےحریفوں کوپیچھے چھوڑنے کیلئےاس شعبےپراپنی توجہ مرکوزکیےہوئےہے۔چین نےاس شعبےمیں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر2014ءسے2017ءتک20ارب ڈالرکی خطیررقم خرچ کی ہے۔
اگرچین اس صنعت میں بھی مکمل مہارت حاصل کرلیتاہےاورمنڈیوں میں اس صنعت سےمتعلق اشیاکی بھرمارکرتاہے(جیساکہ اس نے سولرپینل اورونڈٹربائین کے معاملےمیں کیاتھا)تونہ صرف ان اشیاکی دیگرصنعتیں تباہ ہوجائیں گی بلکہ ہماری قومی سلامتی، دفاعی نظام،ہماری معیشت کاانحصاربھی چینی صنعتوں پربڑھ جائےگا۔جیساکہ سرکاری حکام ابsemiconductor کی فروخت پر نگرانی شروع کرچکےاوراس کی فروخت کومحدود کرتے جارہےہیں،اسی طرح امریکی حکومت نے مختلف چینی کمپنیوں کو semiconductorکی فروخت پرعارضی پابندی لگائی ہےان اقدامات سے چین کی مقامی صنعت کوخود مختاربنانے کانہ صرف جذبہ بڑھے گابلکہ وہ اس پرتیزی سے کام بھی کرےگا۔اصل توجہ اس بات پردینی چاہیے کہ چین ان معدنی وسائل کےخام مال پر مکمل کنٹرول حاصل نہ کرپائےاورنہ ہیcomputing powerخودمختاری حاصل کرے۔
لیکن یہ کوئی حتمی مشاہدہ نہیں ہے۔تاہم اس بات پرازسرنوغورکرنے کی ضرورت ہے کہ ہم تزویراتی صنعتوں اورطویل مدتی سرمایہ کاری کوکتنی اہمیت دیتےہیں،اس کےعلاوہ معاشی خوشحالی اورقومی سلامتی کےشعبےکواس ڈیجیٹل دورمیں کس تناظر میں دیکھتےہیں۔کچھ ممالک تواس حوالےسے نہ صرف سوچ رہے ہیں بلکہ بھرپوراقدامات بھی کررہے ہیں۔ماہ اپریل میں امریکی حکام نےlithiumکی صنعت سے تعلق رکھنے والے ماہرین اوراسٹیک ہولڈرزسےایک میٹنگ کی،جس میں انہوں نے بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کیلئےملکی طورمکمل سپلائی چَین (Supply Chain)بنانے پرحکمت عملی تشکیل دینے کی بات کی،اوریہ ایک آغازہے۔
یادہے کہ امریکاچین تجارتی جنگ6جولائی2018کواس وقت شروع ہوئی تھی جب امریکانے چینی درآمدات کے34بلین امریکی ڈالرپر25 فیصد محصول لگایاتھاجو2018اور2019 کے دوران عائد ٹیکسوں کے سلسلے کی پہلی کڑی تھی جس پر ٹرمپ نے باضابطہ طورپر15جنوری 2020 کو دستخط کرکےاس کی دفعات کو15فروری 2020 سے نافذ کرنے کااعلان کردیا۔ اس معاہدے کے بعددنیاکی دوبڑی معیشتیں ایک تلخ تجارتی جنگ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئیں۔امریکااورچین نے ایک دوسرے کے سامان کی مالیت کے سیکڑوں اربوں ڈالرپرمحصولات عائد کرنے کااعلان کرکے دنیاکوایک نئی تجارتی جنگ میں الجھادیا۔ ٹرمپ نے جہاں طویل عرصے سے چین پرغیرمنصفانہ تجارتی طریقوں اوردانشورانہ املاک کی چوری کاالزام عائد کیاوہاں چین نے جوابی الزام میں کہاکہ امریکا عالمی اقتصادی طاقت کے طورپراس کے عروج کوروکنے کی کوشش کررہاہے۔تاہم اس لفظی جنگ کے بعد مذاکرات میں15جنوری 2020 کو دونوں فریقوں نے ابتدائی معاہدے پردستخط توکردیئےلیکن کچھ انتہائی اذیت ناک معاملات حل نہیں ہوسکے۔
تاہم اس معاہدے پربظاہردستخط کامقصدتجارتی جنگ میں آسانی پیداکرنابتایاگیاجس نے عالمی منڈیوں کوجھنجھوڑکررکھ دیااور عالمی معیشت کوخاصاوزن برداشت کرناپڑا۔ٹرمپ نے اس معاہدہ کوامریکی معیشت کیلئے”تبدیلی”جبکہ چینی رہنماؤں نے اس کو “جیت”کامعاہدہ قراردیا۔چین نے امریکی درآمدات کو2017 کی سطح سے200بلین ڈالربڑھانے اوردانشورانہ املاک کے قواعدکو مستحکم کرنے کاوعدہ کیا۔اس کے بدلے میں امریکانے چینی مصنوعات پرلگائےگئے کچھ نئے نرخوں کو آدھاکرنے پراتفاق کرلیا۔
تاہم سرحدی ٹیکس کی اکثریت اپنی جگہ پرموجود ہےجس کی وجہ سے کاروباری گروپوں کومزید بات چیت کامطالبہ کرنے پر مجبورکیاگیاہے۔یوایس چیمبرآف کامرس میں چائناسنٹرکے صدرجریمی واٹرمین نےکہا”آگے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے تاہم آج لطف اٹھانا چاہئے لیکن جلدہی دوبارہ واپس مذاکرات کی میزپرواپس آنے کیلئے مزیدانتظارنہیں کرناپڑے گا”۔
امریکااورچین 2018 سے “ٹٹ فارٹیٹ”ٹیرف جنگ میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے 450 بلین ڈالرمالیت کے تجارت شدہ سامان پراضافی درآمدی ٹیکس کےجاری تنازعہ نےغیرمنقسم سرمایہ کاروں کی تجارتی روانی کومتاثراورعالمی معاشی نموکو مایوس کیاہے۔ تجارتی تجزیہ نگاروں اورعالمی مالی ماہرین کے مطابق اگراس عالمی مایوسی کابروقت تدارک نہ کیاگیاتویہ سردجنگ دنیاکی تباہی اورتاریکی کاسبب بھی بن سکتی ہے۔
ستمبر 25, 2020

اپنا تبصرہ بھیجیں