وطن نیوز انٹر نیشنل

میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں !

سوہنی کے شہر کا نوحہ
صدیوں کی تاریخ سینے میں لئے چناب کنارے آباد ایک ایسا شہر جسے تاریخ دانوں نے خطہ یونان کا نام دیا
کہتے ہیں دریاوں کنارے آباد بستیوں کے مکینوں میں ان پانیوں کی تاثیر رچی بسی ہوتی ہے
” چناب عاشقاں ”
ہاں محبت وفا اور ایثار کی لازوال داستان کا امین چناب
یاد ہے جب محبت نے پکارا تو میری ایک سوہنی نے کچے گھڑے پر تیر کر وفا کی لاج نبھا کر دکھا دی
میرے سپوت ایسے ہی سچے عاشق ہیں جب وطن کی حرمت پہ آنچ آتی ہے تو اس کے جیالے سپوت دھرتی ماں کے آنچل پہ 3 نشان حیدر ٹانک دیتے ہیں
میرے کوزہ گروں کے دست ھنر کا شاہکار مٹی کے ظروف ہوں یا محنت کشوں کے ہاتھ سے بنے پنکھے میری پہچان ہیں
اھلم قلم ہوں یا دانش مند میرا دامن ایسے نابغوں سے مالا مال رہا
عرب کے لق و دق صحرا ہوں یا یورپ کے یخ بستہ میدان
براعظم امریکہ ہو یا افریقہ
دنیا کا کوئ کونا ایسا نہیں جہاں میرے بیٹوں نے اپنی محنت شاقہ سے کامیابی کی داستانیں رقم نہ کی ہوں
وطن عزیز کو صدر مملکت سے لے کر وزیر اعظم تک راج کرنے والے رھنما پیش کرنے میں بھی کبھی تہی دامنی کا احساس نہیں ہوا
اور وزارت تو ہر دور اقتدار میں میرے ماتھے کا جھومر رہی ہے
سب کچھ بدل گیا نہیں بدلی تو میری حالت زار
لوگ ناظم تھے تو سائیکل پہ سوار آئے اور میرے وجود کو ایسا نوچا کہ واپس گئے تو پجارو ان کے نیچے تھی
میرے بیٹے خوب پھلے پھولے معمولی حیثیت سے اٹھے اور نہ صرف اپنے دیس بلکہ دیس پرائے بھی فیکٹریوں کے مالک بن بیٹھے
میرا وجود دن بدن کمزور پڑتا گیا چہرہ کملاتا رہا اور میرا سارا جوبن خزاں رسیدہ ہوتا گیا
ایک دور ایسا بھی آیا جب میرے بیٹوں کے پاس وزارت عظمی، وزارت اعلی ضلع ناظمی کے سارے قلمدان آ گئے
مجھے لگا اب بیٹوں کو میرا بھی خیال آ جائے گا میرے وجود سے رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھ دی جائے گی لیکن ستم یہ ہوا کہ چند کوڑی کمیشن کے عوض مجھے عطائیوں کے ہاتھ گروی رکھ دیا گیا اور پھر میرا اصل چہرہ بھی ایسا دھندلایا کہ اپنا آپ پہچانا نہ جائے
یہ دور گذرا تو میرا ایک حاجی بیٹا میدان میں آیا اس کا نعرہ تھا کہ وہ میرے ساتھ روا رکھی ہر زیادتی کا ازالہ کرے گا میری مانگ سنوارے گا اور چہرے پہ ملی کالک اپنے ہاتھوں سے صاف کرے گا
دس سال وہ بھی اقتدار کی کان میں رہ کر نمک ہو گیا
نعرے ماند پڑتے گئے میری حالت زار سوالی بنی رہی اور اس کی فیکٹریاں خوب ترقی کرتی رہیں
نجانے کس نے میرے ان بیٹوں کو پیرس کا بتا دیا
بس پھر جو بھی مسند اقتدار پہ فائز ہوتا یہ بھڑک مارتا کہ
ہم گجرات کو پیرس بنا کر دم لیں گے
ہر بارش ان کے اس کھوکھلے نعرے کی قلعی ایسی کھولتی ہے کہ میری رگ رگ سے عرق ندامت کا سیلاب پھوٹ پڑتا ہے
کوئ ہے جو میرے ان لائق پتروں سے کہہ دے
کہ ڈائن بھی ایک گھر چھوڑ جاتی ہے
کمیشن کھانے کو پورا ضلع پڑا تھا کیا تھا جو مجھے آپ بخش دیتے اب
کوئی ماسٹر پلان بنایا ہوتا
دو کوڑی کے تھڑ دلے ٹھیکیداروں کی بجائے میری مانگ سنوارنے کا ٹھیکہ NLC , FWO یا کسی عالمی معیار کے ادارے کو دیا ہوتا تو آج یوں تمہیں منہ تو چھپانے نہ پڑتے
اب کیا کہوں میں
جب اولاد ہی نکمی نکلے تو پھر کیسا شکوہ اور کس سے گلہ
بس یہی کہنا ہے کہ
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ #
عامر عثمان عادل

اپنا تبصرہ بھیجیں