وطن نیوز انٹر نیشنل

ڈنمارک میں میونسپلٹی(ضلعی انتخابات) کا انعقاد.

ڈنمارک میں میونسپلٹی(ضلعی انتخابات) کا انعقاد
رپورٹ۔۔ وطن نیوز انٹرنیشنل
گزشتہ ماہ 16نومبر 2021ء کو ڈنمارک میں 98کمیونوں (میونسپلٹیز)اور پانچ ریجن کے انتخابات ہوئے۔ڈنمارک میں ٹھیک چار سال بعد بلا ناغہ انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔اس کے لئے حکومت نے مہینہ اور تاریخ مقرر کی ہوئی ہے اور عموماً اس کے مطابق ہی پورے ملک میں انتخابات ہوتے ہیں۔اس دفعہ ڈنمارک میں 2436سیٹوں کیلئے کمیونوں (ضلع.،بلدیات) میں اور 205سیٹوں پر ریجنل کونسل کیلئے چار سال کیلئے انتخابات ہوئے۔پورے ملک کو انتظامی لحاظ کے تحت مختلف ریجن میں تقسیم کیا گیا ہوا ہے۔کیپٹل ریجن میں 29کمیونیں (میونسپلٹیز)شامل ہیں۔ساؤتھ ڈنمارک ریجن میں 22‘سنٹرل ڈنمارک ریجن میں 19‘ ذی لینڈ (Zealand)ریجن میں 17اور نارتھ ڈنمارک میں 11کمیون شامل ہیں۔یاد رہے کہ یہ موجودہ نظام ڈنمارک میں 26جون 2005ء میں تشکیل دیا گیا تھا۔جس کی رو سے ملک بھر میں 13کونٹی(counties)یعنی Amtsکی جگہ صرف پانچ ریجن بنا دی گئی تھیں۔جبکہ 270میونسپلٹی کو 98میونسپلٹی میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ان میں سے زیادہ تر صرف 20000,شہریوں پر مشتمل ہیں۔ڈینش میونسپلٹی کا اوسطاً رقبہ 432,59 مربع کلو میٹر ہے۔
ڈنمارک میں جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ ہر چار سال بعد ضلعی (کمیونل) اور اسی طرح نیشنل پارلیمنٹ کے انتخابات بھی چار سال بعد ہی منعقد ہوتے ہیں۔1970ء سے لیکر اب تک غیر ملکیوں کی آمد اور تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ِاس لئے گزشتہ کئی سالوں سے ڈنمارک میں مقیم غیر ملکی بھی پارلیمنٹ اور کمیون کے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔جبکہ ان دنوں بھی ایک پاکستانی نژاد سکندر صدیق ملک ڈینش پارلیمنٹ میں بھی موجود ہے۔موجودہ کمیونل انتخابات میں پاکستانی‘ ترکی اور عربی دیگر غیر ملکیوں کی نسبت کچھ زیادہ متحرک نظر آتے ہیں۔ہم صرف ان پاکستانی نوجوانوں کا یہاں ذکر کریں گے جو حالیہ انتخابات میں یا اس سے پہلے حصہ لے چکے ہیں۔
ڈنمارک میں ضلعی حکومت سازی کے تحت پورا ملکی نظام چلایا جا رہا ہے۔جیساکہ بتایا گیا ہے کہ پورے ملک کو 98کمیونوں (میونسپلٹی)اور پانچ ریجن میں تقسیم کیا گیا ہے۔ڈنمارک میں ان دنوں تقریباً درجن بھر چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں عوامی و قومی نظام چلانے میں مصروف ہیں۔یہی جماعتیں ڈینش پارلیمنٹ میں بھی موجود ہیں جو ملک بھر میں پارلیمنٹ نظام حکومت کے تحت قانون سازی کرتی ہیں۔یہاں پر تیار کر دہ قانون کے بل بوتے پر ملک کی تمام ضلعی حکومتیں کام کرتی ہیں۔ہر ضلعی حکومت میں ایک میئر کا انتخاب ہوتا ہے۔ میئر عموماً ایسی پارٹی کا ہی منتخب ہوتا ہے جس کے پاس زیادہ سیٹیں ہوتی ہیں۔اسی طرح وفاقی حکومت کی طرح کمیون (ضلع) میں بھی حکومتی پارٹی کے مقابلہ کیلئے اپوزیشن کی جماعتیں کردار ادا کرتی ہیں۔ہر ضلعی حکومت اپنے اپنے علاقے میں مختلف شعبوں میں تعمیر و ترقی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ضلعی حکومت اپنے شہریوں سے باقاعدہ ایک مقررہ تناسب کے تحت ٹیکس وصول کرتی ہے۔جو اپنے ہی شہریوں کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ضلع بھر میں جو بھی کام کئے جاتے ہیں جیسے شعبہ ء تعلیم‘ ٹرانسپورٹ‘شاہراؤں کی تعمیر‘ بجلی و گیس اور پانی کی فراہمی‘ سکولوں اور کالجوں کی تعمیر و ترقی اور اس کے علاوہ ہر قسم کے عوامی کاموں کی ذمہ دار ہوتی ہے۔گویا ہر ضلع سے ٹیکس کی مد َ میں جتنی رقم وصول ہوتی ہے اسے اپنے ضلع پر ہی خرچ کیا جاتا ہے۔
وفاقی حکومت کے تمام وزراء اپنے اپنے شعبوں کے تحت ضلعی حکومتوں کی نگرانی اور مدد کے پابند ہوتے ہیں۔کیونکہ ہر ضلعی حکومت کچھ فیصد ٹیکس عوام سے وصول کرکے وفاق کے خزانے میں بھی جمع کراتی ہے۔اور اگر ضلعی حکومت کو کسی مدَ میں مزید مدد کی ضرورت پڑ جائے تو وفاق اس کی مدد کرتا ہے۔وفاقی حکومت مرکزی امور کی انجام دہی کے ساتھ ضلعی حکومتوں کی راہنمائی اور مدد کی ذمہ دار بھی ہوتی ہے۔یاد رہے کہ وفاقی حکومت ضلعی حکومت میں بے جا مداخلت نہیں کرتی۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں سکنڈے نیویا کے ممالک میں دوسری دنیا کے علاوہ حقیقی اور فعال جمہوریت نظر آتی ہے۔
یہاں پر ہم نے بات تو ضلعی (میونسپلٹی‘ کمیون)کے حالیہ انتخابات کی شروع کی تھی‘لیکن قارئین کی انفارمیشن کیلئے تھوڑی سے تفصیل پیش کر دی ہے۔تاکہ پاکستان میں نظام حکومت اور ڈنمارک کے نظام میں فرق جانا جا سکے۔جیسا کہ ہم نے بتایا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ڈنمارک میں مقیم غیر ملکیوں نے بھی ڈینش سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ہوا ہے۔اس لئے ہم یہاں پر ان پاکستانی نوجوانوں کا ذکر کرتے ہیں‘جنہوں نے موجودہ الیکشن میں حصہ لیا ہے۔آپ کو بتاتے چلیں کہ ڈنمارک میں پاکستانی تارکین وطن کی کل تعداد تقریباًپچاس ہزارہے اور یہ زیادہ تر ڈینش دارلخلافہ(کوپن ہیگن)میں اور اس کے نواحی شہروں میں آباد ہے۔اس لئے تارکین وطن کی طرف سے سیاسی ہل چل بھی ان ہی علاقوں میں نظر آتی ہے۔یہاں پر ہم ان کمیونوں (میونسپلٹی) کی ذکر کریں گے‘ جہاں سے تارکین پاکستان ڈینش سیاست میں سرگرم رہتے ہیں۔آئیں دیکھتے ہیں کہ کس کس نوجوان نے بلدیہ (کمیونل)یا ضلعی انتخابات میں حصہ لیا اور ان کی پوزیشن کیسی رہی ہے۔
1٭۔البرسٹلنڈ(Alburstlund)کمیون۔۔۔یہاں سے اخلاق احمد(Akhlaq Ahmad)نے سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے تحت الیکشن لڑا اور وہ 279ووٹ لے کر کونسلر منتخب ہو گئے۔۔2۔زوہیر علی(Zoair ALI)سیاسی پارٹی ریڈیکل وینسٹرا کے امیدوار تھے اور وہ 485ووٹ حاصل کرکے کونسلر بن گئے۔۔3۔۔بلال ظہور(Bilal Zahoor)کنزرویٹو پارٹی کے پلیٹ فارم سے 66 ووٹ حاصل کرکے کونسلر منتخب ہو گئے۔۔4۔۔قاسم مرزا (Qasam Mirza) نے بھی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے الیکشن لڑا‘انہوں نے 158ووٹ حاصل کئے اور کامیاب نہیں ہو سکے۔۔ 5۔۔رخسانہ علی(Rukhsana Ali)نے بھی سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے تحت انتخاب لڑا اور انہوں نے 79ووٹ لئے لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔
٭Ballerup کمیون۔۔1۔Zeeshan Ali۔(ذیشان علی)نے وینسٹرا پارٹی سے الیکشن لڑا اور انہوں نے 59ووٹ حاصل کئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
٭۔Brøndby Kommune(برانڈ بی کمیون)سے سید اعجاز حیدر بخاری(Syed Ehjaz Haider Bukhari)نے سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور انہوں نے473ووٹ حاصل کئے اور اس دفعہ بھی تیسری بارلگاتار کامیاب ہو کر اگلے چار سال کیلئے کونسلر منتخب ہو گئے۔
٭۔Frederiksberg(فریڈرکس برگ) کمیون سے فیصل رحمان نے کنزرویٹو پارٹی سے الیکشن لڑا اور انہوں نے405ووٹ حاصل کئے اور کونسلر کامیاب ہو گئے۔
٭۔HERLEV KOMMUNE سے عباس رضوی ریڈیکل وینسٹرا پارٹی کے پلٹ فارم سے الیکشن میں کودے لیکن وہ صرف 45ووٹ ہی حاصل کر سکے‘لہٰذا ناکام ہوئے۔
٭۔Gladsexe Kommune(گلیڈ سیکس) سے سلیمان نعیم بغیر کسی پارٹی کے لوکل لسٹ سے انتخاب لڑے اور وہ 418ووٹ لیکر کامیاب کونسلر منتخب ہو گئے۔
٭۔۔Hvidore Kommune سے یاسر اقبال سوشل ڈیموکریٹ پارٹی سے الیکشن لڑے اور وہ 456ووٹ حاصل کرکے دوبارہ کونسلر منتخب ہو گئے۔
٭۔۔Højtastrup Kommuneسے صباء عابد (Saba Abid) نے سوشل ڈیموکریٹ پارٹی سے انتخابات میں حصہ لیا اور وہ 340ووٹ لے کر دوبارہ کونسلر بن گئیں۔
٭۔۔Copenhagen Kommuneسے کاشف احمد نے ریڈیکل وینسٹرا کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور انہوں نے 1295ووٹ حاصل کئے لیکن کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ مرکزی کمیون ہونے کی وجہ سے امیدواروں کو زیادہ ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
٭۔۔REGION۔۔اس دفعہ بھی قاسم نذیر احمد نے Alternative Partyکے پلیٹ فارم سے انتخاب میں حصہ لیا۔ریجن میں ان کے علاوہ کوئی دوسرا پاکستانی امیدوار بھی نہیں تھا اور اس ریجن میں تقریباً 29کمیون شامل ہیں اور یہاں پر پاکستانیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔لیکن قاسم نذیر خاطر خواہ کمپیئن نہیں کر سکے اس لئے وہ صرف 2861ووٹ ہی حاصل کر سکے۔ایسے مواقع روز روز نہیں ملتے۔اگر انہوں نے سیاست کرنی ہے تو پھر انہیں متحرک ہونا پڑے گا۔ قاسم نذیر تعلیم یافتہ قابل اور ڈینش سیاست کو اچھی طرح سمجھتے بھی ہیں۔ہمارا ان کو مشورہ ہے کہ انہیں پاکستانی کمیونٹی اور دیگر ممالک کے لوگوں سے بھی رابطے بڑھانے ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں