وطن نیوز انٹر نیشنل

اقوام متحدہ: اب ویٹو پاور کے استعمال کا حساب بھی دینا ہو گا


اقوام متحدہ کی ایک نئی قرارداد کے تحت اب ویٹو پاور کا استعمال کرنے پر ان ممالک کو وضاحت کرنی ہو گی کہ آخر کیسے اور کیوں ایسا کیا گیا۔ جنرل اسمبلی میں اس قرارداد کو تالیوں کی گونج کے ساتھ اتفاق رائے منظور کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے اس قرارداد کی منظوری کے حق میں ووٹ دیا جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کی جانب سے ویٹو پاور کے استعمال کرنے پر انہیں جوابدہ بنانے کی جانب پہلا قدم سمجھا جا رہا ہے۔
اس قرارداد سے پانچوں مستقل ارکان، امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس اپنے ویٹو پاور سے تو محروم نہیں ہوں گے، تاہم پہلی بار جنرل اسمبلی میں اس بات پر بحث ہو سکے گی کہ ویٹو پاور کا استعمال آخر کس بنیاد پر اور کس مقصد کے لیے کیا گیا۔
کسی بھی مسئلے پر ویٹو پاور کے استعمال کے 10 روز کے اندر جنرل اسمبلی میں اس ”صورت حال پر بحث” کرنے کی ضرورت ہو گی کہ آخر کسی قرارداد کو روکنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور ویٹو پاور کا استعمال کرنے والے ملک کو اس کی وضاحت کرنی ہو گی۔
اس قرار داد کی حمایت میں متفقہ طور جنرل اسمبلی کے سبھی 193 ارکان نے ووٹ کیا اور تالیوں کی گونج کے ساتھ اسے منظور کر لیا گیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فارمیٹ پر ایک طویل عرصے سے نکتہ چینی ہوتی رہی ہے کہ اس کے پانچ مستقل ارکان میں سے اگر کوئی رکن قرارداد کے حق میں نہ ہو یا ناراض ہو تو اتفاق رائے کے لیے یا تو بہت جد جہد کرنی پڑتی ہے یا پھر وہ قرارداد ناکام ہو جاتی ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد اس دیرینہ مسئلے کی جانب کچھ زیادہ ہی توجہ مرکوز ہوئی ہے۔
قرارداد کا مقصد کیا ہے؟
اس قرارداد میں ویٹو پاور کا استعمال کرنے والے ملک کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں سب سے پہلے خطاب کرنے کا موقع فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ لیکن جنرل اسمبلی اس طرح کے اجلاس کے نتیجے میں کسی بھی طرح کی کارروائی کرنے کی مجاز نہیں ہو گی۔
پھر بھی اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ جب پانچوں مستقل ارکان میں سے کوئی بھی ویٹو پاور کا انتخاب کرے، تو اسے جوابدہ بنانے کے ساتھ ہی اس کی رائے پر باریک نظر رکھی جا سکے اور انہیں عالمی رائے سے آگاہ بھی کیا جا سکے کہ آخر دنیا کا موقف کیا ہے۔
اقوام متحدہ میں لیختنسٹین کے سفیر کرسچن ویناویسر نے اس اقدام کی قیادت کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ قرارداد، ” بین الاقوامی امن اور سلامتی کے معاملات پر ہم ان سب کی آواز کو سننے کی بات کرتی ہے جو ویٹو پاور نہیں رکھتے یا پھر جو سلامتی کونسل کے رکن نہیں ہیں، کیونکہ ایسے معاملات ہم سب کو متاثر کرتے ہیں۔”
سلامتی کونسل اس وقت سرخیوں میں کیوں ہے؟
حال ہی میں روس نے یوکرین میں اپنے ”خصوصی فوجی آپریشن” کے حوالے سے قراردادوں کو ویٹو کر دیا تھا اور جہاں تک یوکرین پر روسی حملے کی بات ہے تواس حوالے سے مستقبل میں بھی ویٹو کے خطرات نے اقوام متحدہ کے سب سے طاقتور ادارے کو تقریباً مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
سکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان امریکہ اور برطانیہ نے یہ قرارداد پیش کی تھی جبکہ جرمنی سمیت مجموعی طور پر تقریباً 80 ممالک نے لیختنسٹین کی تجویز پر بطور شریک اسپانسر دستخط کیے تھے۔
پانچ مستقل ارکان کے علاوہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 10 ارکان اور بھی ہوتے ہیں جو دو سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں، تاہم ان کے پاس ویٹو پاور نہیں ہوتا ہے۔
سن 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کو قائم کیا گیا تھا اور تب سے ریکارڈ کے مطابق، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 200 سے زیادہ قراردادوں کو ویٹو کیا جا چکا ہے۔
ویٹو کی گئی قراردادوں میں کوریا کی جنگ، اسرائیل-فلسطین تنازعہ، موسمیاتی تبدیلی، ہتھیاروں سے متعلق رپورٹس اور بحر ہند کے ملک کوموروس کے ایک حصے کی حکومت جیسے بہت سے امور شامل ہیں۔
سوویت یونین اور پھر بعد میں روس کی حیثیت سے ماسکو نے اپنے ویٹو پاور کا سب سے زیادہ استعمال کیا ہے جبکہ دوسرے نمبر پر امریکہ ہے۔
چالیس برس سے بھی زیادہ عرصے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات پر بحث ہوتی رہی ہے، تاہم متعدد کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)

اپنا تبصرہ بھیجیں