وطن نیوز انٹر نیشنل

باپ وزیراعظم پاکستان، بیٹا وزیر اعلی پنجاب

میاں حمزہ شہباز شریف نے صوبے کے وزیر اعلی کا حلف اٹھایا لیا۔ کیا اب پنجاب کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے؟
پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما میاں حمزہ شہباز شریف نے صوبے کے 21ویں وزیر اعلی کا حلف اٹھایا۔وہ کئی دہائیوں تک برسراقتدار رہنے والی شریف فیملی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کے بیٹے ہیں۔ لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس پیش رفت کے باوجود صوبے کا سیاسی بحران ابھی ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ احتجاجی رویوں، عدالتی چارہ جوئیوں اور اختلافی بیانوں کے طویل سلسلے کے بعد ہفتے کے روز پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو ایک ماہ بعد اس کا چیف منسٹر مل گیا ہے۔ عدالتی حکم کے تحت پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے ان سے حلف لیا
دوسری طرف اسی روز پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے سابق وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے کئی ہفتے پہلے دئیے گئے استعفے کو غیرقانونی قرار دے کر اسے مسترد کرتے ہوئے انہیں وزیر اعلی پنجاب کے طور پر بحال کرنے کا اعلان کیا۔ اس پیش رفت کے بعد سردار عثمان بزدار نے اپنی قیادت میں اپنی کابینہ کا علامتی اجلاس منعقد کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ‘کابینہ ‘کے اس اجلاس کے لئے دعوت نامے پنجاب کے متعلقہ سرکاری محکمے کی بجائے پی ٹی آئی کے دو سابق وزرا کی طرف سے جاری کئے گئے تھے۔ پنجاب اسمبلی میں ہونے والے اس اجلاس میں نئے وزیر اعلی حمزہ شہباز کے انتخاب کو غیرقانونی قرار دیا گیا۔
سینتالیس سالہ اولڈ راوئین حمزہ شہباز کو موروثی سیاست کے الزامات کے سائے میں وزارت اعلی سنبھالنے والے حمزہ شہباز ایک ایسے وقت میں برسراقتدار آئے ہیں جب صوبہ پنجاب میں عوام کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملیے!
بحران ابھی ٹلا نہیں
پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار امتیاز عالم نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حمزہ شہباز نے ابھی تو پی ٹی آئی کے منحرفین کو ساتھ ملا کر اکثریت حاصل کر لی ہے۔ لیکن ابھی پی ٹی آئی کے 26 منحرفین کے بارے میں 6 جون تک عدالتی فیصلہ آنا باقی ہے۔ اپنے خلاف فیصلہ آنے پر کیا وہ پی ٹی آئی کے مزید ارکان توڑیں گے؟ مزید لوگ نا اہل قرار پائیں گے؟ ایسا لگتا ہے کہ صوبے میں سیاسی استحکام نہیں آ سکے گا۔
حمزہ شہباز کو کن چیلنجز کا سامنا ہو گا؟
روزنامہ پاکستان سے وابستہ سینئیر صحافی چوہدری خادم حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس وقت انتخابات کے قریب آ جانے اور عمران خان کے احتجاجی عزائم کی وجہ سے جو صورتحال درپیش ہے اس میں حمزہ شہباز کے پاس ‘ڈیلیور‘ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔
حمزہ شہباز نے ایک ایسے موقعے پر وزارت اعلی کا قلمدان سنبھالا ہے جب پنجاب میں عوام روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی، شدید لوڈ شیڈنگ اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ حمزہ شہباز شریف کو پنجاب میں پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک سے بھی نمٹنا پڑے گا۔ حمزہ شہباز کی پارٹی کے وہ لوگ جو موروثی سیاست کی وجہ سے ان کے وزیراعلی پنجاب بننے کے حامی نہیں تھے، انہیں ان کے تحفظات کو بھی دور کرنا ہوگا۔ حمزہ شہباز کے لئے مختلف پارٹیوں سے لئے گئے وزرا پر مشتمل کابینہ کو ساتھ لے کر چلنا بھی ایک چیلنج ہو گا۔
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حمزہ ماضی میں بھی وزیراعلی شہباز شریف کی معاونت کرتے ہوئے مشکل چیلنجز سے نبرد آزما ہوتے رہے ہیں۔ اب مرکز میں بھی ان کے والد کی حکومت ہے۔ ان کی حمایت سے وہ ان مشکلات سے نکل سکتے ہیں۔ چوہدری خادم حسین کہتے ہیں کہ حمزہ شہباز کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کروا کر اپنا بوجھ کم کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں