وطن نیوز انٹر نیشنل

پاکستان: تین سالوں میں کیا کچھ بدل گیا؟

پاکستان: تین سالوں میں کیا کچھ بدل گیا؟
سفری پابندیوں میں جب آخرکار کچھ کمی آئی تو بچوں کی ایسٹر کی چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم بھی پاکستان روانہ ہوگئے۔ اس دفعہ تقریباً تین سال بعد جانا ممکن ہوا۔ ثنا ظفر کا بلاگ
بہت کچھ پہلے جیسا ہونے کے باوجود کبھی خوشگوار حیرت اور کبھی مایوسی نے گھیر لیا۔ سب سے پہلے تو ماہ رمضان کی اسلامی ملک میں برکت کا کوئی مقابلہ ہی نہیں، سارے خاندان کا مل کر سحر و افطار کے اہتمام سے لے کر عبادات پر زور ایک انتہائی پرسکون جذبہ پیدا کرتا ہے۔ قرآن پاک کا درس اور تراویح کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ وہ سب جو ہم شاید سارا سال نہیں پکاتے اور کھاتے, وہ سب اسی ایک ماہ میں تناول کر جاتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ رمضان کی آمد پر پھلوں اور دیگر بنیادی خوراک کی قیمت یک دم آسمان کو چھونے لگتی ہے اور نچلے طبقوں کی رسائی سے باہر ہو جاتی ہے جو ایک مایوس کن احساس ہے۔
اکثر مغربی ممالک میں کرسمس اور مختلف تہوار پر بڑی بڑی سیلز کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ستے داموں خرید وفروخت سے گاہک اور دکانداروں سب کا ہی فائدہ ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس رمضان میں مہنگائی سراسر ناانصافی محسوس ہوتی ہے البتہ یہاں یہ سب ضرور قابل ذکر ہے کہ پاکستانی عوام بہت بڑے دل کی مالک ہے اور دوسروں کی مدد کرنے اور دینے دلانے میں کوئی کثر نہیں اٹھا رکھتی۔ زیاده ثواب اکٹھا کرنے کے جذبے سے جتنا صدقہ، خیرات، زكوة وغيره کا اہتمام رمضان میں ہوتا ہے وہ يقيناً قابل ستائش ہے۔ جگہ جگہ افطار کا اہتمام، راشن کے پیکٹ بانٹنا، لنگر اور دیگر کاوشیں بہت سے لوگوں کے لیے مالی پریشانی میں آسانی مہیا کرتی ہیں۔ ایک طبقہ بہرحال پھر بھی پریشانی سے دوچار رہتا ہے اور وہ ہیں ایسے سفید پوش لوگ جو ضرورت کے باوجود نہ تو خود آگے بڑھ کر صدقہ قبول کریں گے اور نہ ہی لنگر میں اپنے بچوں کے ساتھ جانا پسند کرتے ہیں۔ یہ خوداری کبھی کبھی اس طبقے کو بہت مہنگی پڑتی ہے۔
ایک طرف یہ صدقہ، خیرات، افطار کا رحجان بڑھتا ہے وہیں بدقسمتی سے مانگنے کا رجحان بھی شدت اختیار کر جاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں بھکاریوں کی تعداد میں شدت سے اضافہ بہت پریشان کن ہے۔ انسان یہی سوچتا رہ جاتا ہے کہ کون واقعی ضرورت مند ہے اور کون شاید کسی مافیا کے لیے کام کر رہا ہے؟ جب کبھی ترس اور احساس ندامت اتنا گھیر لیتا ہے کہ انسان کسی کی مدد کرہی دے تو چند لمحوں میں بیچ بازار میں اس احساس کی جگہ درجنوں مزید بھکاری لے چکے ہوتے ہیں جن کے گھیرے سے جان بچا کر نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں بڑے بڑے شاپنگ مالز اب جدت اور سہولیات میں کسی بھی طرح ترقی یافتہ ممالک سے کم نہیں۔ اتنی ترقی اور آسانی دیکھ کر دل مسرور ہو جاتا ہے۔ شدید گرمی میں یہ ٹھنڈے مالز جہاں ہر چیز ایک ہی چھت کے نیچے دستیاب ہے یقیناً ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔ پاکستان میں یوں بھی تفریح کے مواقع کم سے کم ہوتے رہے ہیں اس لیے پورے گھرانوں کو اکٹھا لطف اندوز ہوتا دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ ہاں مگر مال سے باہر آتے ہی بھکاریوں کی لمبی قطار ضرور نظر آتی ہے۔ ایک طرف ہاتھ میں پکڑے خریداری کے تھیلے اور دوسری طرف وہ معصوم بچے جن کے تن پر پورے کپڑے بھی نہیں، ایک دل خراش مجرمانہ کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔
نئی نسل کا جزل نالج اور شعور یقیناً قابل ستائش ہے۔ بچہ بچہ فر فر انگریزی بولتا ہے جو ظاہر ہے ترقی کا ضامن ہے اور ہر دوڑ میں آگے بڑھنے کے لیے لازم بھی۔ مگر وہیں اپنی قومی زبان اردو سے دوری ایک مایوس کن رحجان اختیار کر گیا ہے۔ انگریزی زبان کو صرف زبان نہیں بلکہ تعلیم یافتہ اور ماڈرن ہونے کا پیمانہ اور باعث فخر سمجھنا کوئی عقلمندانہ رویہ نہیں اور یہی حال رہا تو شاید چند دہائیوں میں اردو ادب ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے گا۔
لوگوں کا اور خاص کرنئی نسل کا گھریلو ملازمین کے ساتھ مثبت رویہ دیکھ کرخوشی ہوئی۔
ان سب مثبت اور منفی رحجانات کے ساتھ جو نہیں بدلا وہ ہے ہمارے لوگوں کا خلوص اور پیار۔ اتنی مہمان نوازی اور کشادہ دلی پاکستان کی پہچان ہے۔ بہت سی محبت، بہت سے تحائف اور خوشگوار یادیں اکھٹی کر کے ہم تو واپس جرمنی آگئے لیکن اس امید اور دعا کے ساتھ کہ اگلی بار اس سے بڑھ کر مثبت تبدیلی دیکھ پائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں