وطن نیوز انٹر نیشنل

’یوکرین جنگ کے سبب پناہ کے متلاشی افغان باشندوں کو نہ بھلایا جائے‘

’یوکرین جنگ کے سبب پناہ کے متلاشی افغان باشندوں کو نہ بھلایا جائے‘
جرمنی کی وزارت خارجہ کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہفتہ وار بنیادوں پر براستہ پاکستان جرمنی پہنچنے والے افغان باشندوں اور افغانستان کے سابق مقامی کارکنوں کی تعداد اوسطاً دو سو ہے۔


جرمنی کی وزارت خارجہ کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہفتہ وار بنیادوں پر براستہ پاکستان جرمنی پہنچنے والے افغان باشندوں اور افغانستان کے سابق مقامی کارکنوں کی تعداد اوسطاً دو سو ہے۔
جرمنی کے ایک معروف میڈیا گروپ ”فُنکے‘‘ کی تازہ ترین رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ محض پاکستان سے ہر ہفتے جرمنی پہنچنے والے سابق مقامی کارکنان، ان کے خاندانوں کے ارکان اور دیگر افغان باشندوں کی تعداد کم از کم 200 ہے۔ یہ اعداد و شمار جرمن وزارت خارجہ کی طرف سے فراہم کردہ ہیں۔ جرمن دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ حالیہ ہفتوں کے دوران پاکستان سے بذریعہ ہوائی جہاز، افغان پناہ گزینوں کی ہفتہ وار بنیادوں پر جرمنی آمد کا سلسلہ گزشتہ سال کابل پر طالبان کے دوبارہ قابض ہونے کے بعد سے جاری ہے۔
2021 ء میں جب طالبان نے ملک کا سیاسی نظام اپنے قبضے میں لے لیا تو ملک بھر سے افغان باشندوں نے فرار ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ خاص طور سے ایسے افغان باشندوں اور ان کے خاندانوں نے اپنے ملک سے فرار ہونے کا راستہ تلاش کرنا شروع کر دیا، جو افغانستان کے مختلف شعبوں سے منسلک تھے اور غیرملکی اداروں سے منسلک تھے۔ یہ افغان کارکنان ملک کے مختلف شعبوں میں کام کر رہے تھے اور اپنی اپنی فیملیز کیساتھ افغانستان چھوڑنے کی ہر ممکن کوشش میں لگے رہے۔
جرمنی: امریکی فوجی اڈوں پر ہزاروں افغان پناہ گزیں اب بھی پھنسے ہیں
جرمن دفتر خارجہ کے مطابق یہ افغان باشندے پہلے پڑوسی ملک پاکستان پہنچتے ہیں اور دارالحکومت اسلام آباد سے ‘خصوصی جہاز‘ کے ذریعے جرمنی آ رہے ہیں۔ جرمنی پہنچنے کی خواہش مند افغان پناہ گزینوں کے لیے پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران بھی ایک متبادل روٹ ہے۔ جرمن وزارت خارجہ کے مطابق ایک بار پاکستان یا ایران پہنچ جانے والے افغان پناہ گزینوں کو ‘ٹرانزٹ‘ کے دوران جرمنی پہنچنے کے لیے کافی سپورٹ مل جاتی ہے۔
جرمن علاقے رامشٹائن میں امریکی وزیر خارجہ کی افغان پناہ گزینوں سے ملاقات

جرمن حکام کے مطابق جب سے افغانستان میں طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں، تب سے اب تک جرمن ویزہ دفاتر کی طرف سے اٹھارہ ہزار چھ سو افغان باشندوں کو جرمنی کے ویزے جاری کیے جا چکے ہیں۔ ویزہ حاصل کرنے والے افغان باشندے وہ ہیں، جن کی زندگیوں کو طالبان کی طرف سے خطرات لاحق ہیں۔
افغانستان میں 20 سال تک جاری رہنے کے بعد گزشتہ برس یعنی 2021 ء اگست کے ماہ میں بین الاقوامی فوجی مشن اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس سے دو ہفتے قبل طالبان نے دارالحکومت کابل پر بغیر کسی حملے یا جھڑپوں کے قبضہ کر لیا تھا۔
افغان پناہ گزین کا بھارت میں احتجاج کیوں؟
محض 2022 ء کے پہلے دو مہینوں کے اندر افغانستان سے فرار ہو کر جرمنی کا رُخ کرنے والے پانچ ہزار افراد، جن کے پاس ملک سے روانگی کے وقت پاسپورٹ تک موجود نہیں تھا، کو مدد فراہم کی گئی تھی۔ جب سے طالبان نے افغانستان میں دوبارہ اقتدار سنبھالا، تب سے برلن حکومت پر افغانستان سے انخلاء کے اقدامات کے ضمن میں سخت تنقید کی جاتی رہی۔
سیاسی پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک جرمن ماہر ویبکے یوڈتھ نے متنبہ کیا ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ کے سبب افغانستان کے مقامی عملے اور ان کے رشتہ داروں کو نہیں بھلا دیا جانا چاہیے۔ یہ وہ افراد ہیں، جو طالبان کے دوبارہ قبضے سے پہلے بھی افغانستان کی گزشتہ حکومت یا مغربی اداروں کے لیے کام کرتے تھے۔
ایسے افراد کی تعداد اب بھی بے شمار ہے، جو افغانستان میں رہ رہے ہیں اور ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ یہ کہنا تھا جرمن خاتون وکیل کا، جنہوں نے یہ بیانات بُدھ کو جرمن شہر وؤرسبرُرگ میں وفاقی اور ریاستی حکومتوں کے وزرائے داخلہ کی کانفرنس کے تناظر میں دیے۔
ک م / ا ا ( ڈی پی اے)

اپنا تبصرہ بھیجیں