وطن نیوز انٹر نیشنل

یوکرینی فوج روسی فورسز کو کب تک روک سکتی ہے؟

روس نے مشرقی یوکرینی شہر سیئویروڈونیسٹک پر قبضے کی خاطر مزید فوجی کمک طلب کر لی ہے، یوکرینی فوج کا کہنا ہے کہ اس محاذ پر روسی افواج کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم روسی طاقت کا زیادہ دیر تک مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔

<>یوکرین نے سیئویروڈونیسٹک کے محاذ پر روسی افواج کو پسپا کر دیا ہے۔ لوہانسک ریجن کے گورنر سرگئی گوآدی نے میڈیا کو بتایا کہ ڈونباس ریجن کے اس اہم صنعتی شہر کے کچھ مقامات پر روسی اف پر مج ہوئی ہیں۔

روسی افواج نے اس وقت اپنی تمام تر توجہ حکمت عملی کے حوالے سے انتہائی اہم شہر سیویروڈونسٹک پر ہی مبذول کر رکھی ہے۔ گوادی کے مطابق یوکرینی افواج مزید دو ہفتوں تک اس شہر کا دفاع کرنے میں کامیاب رہ سکتی ہیں لیکن روس کی طاقت ور فوج کا ایک طویل عرصے تک مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

روس کے ساتھ مذاکرات کے یوکرینی سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ روس کے ساتھ مذاکراتی عمل سے قبل اپنی دفاعی پوزیشن بہتر بنانا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں کییف نے مطالبہ کیا ہے کہ مغربی ممالک اسے جدید ہتھیار فراہم کریں تاکہ روسی حملوں کو ناکام بناتے ہوئے مذاکرات کی میز پر اسے دباؤ میں لایا جا سکے۔ ڈیوڈ ارکھمیا نے مزید کہا کہ بہتر دفاعی صلاحیت ہی ماسکو حکومت کے ساتھ متوازن مذاکرات کا باعث ہو سکے گی۔

اضافی روسی فورسز بلوا لی گئیں
روس نے سیویروڈونسٹک پر قبضے کی خاطر اضافی فورسز طلب کر لی ہیں۔ روس کی طرف سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب گوادی نے میڈیا کو بتایا کہ سیئویروڈونیسٹک کے بیس فیصد حصے میں سے روسی افواج کو واپس نکال دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ قبل ازیں روسی فوجیں اس شہر کے ستر فیصد حصے پر قبضہ کر چکی تھیں۔

 یوکرین جرمن ہتھیار کیوں حاصل کرنا چاہتا3 ہے؟

لوہانسک کے گورنر گوآدی کا کہنا ہے کہ اگر مغربی ممالک یوکرینی فوج کو جدید اسلحہ فراہم کرتے ہیں تو کییف حکومت اپنی مزاحمت میں زیادہ بہتری لا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ چاہییں تاکہ یوکرینی فوجی سب سے پہلے روسی توپخانے کو تباہ کریں اور اس کے بعد روسی بری فوج خود ہی پسپائی پر مجبور ہو جائے گی۔

امریکہ کے علاوہ جرمنی بھی اعلان کر چکا ہے کہ وہ یوکرین کو درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ فراہم کرے گا۔ یہ راکٹ دس تا چالیس کلو میٹر دور تک مار کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ کییف حکومت کو دیے گئے مغربی اسلحے کی وجہ سے ہی یوکرینی افواج روس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

اگر یوکرین کو مزید ہتھیار فراہم کیے جاتے ہیں تو روس کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ نے کہا ہے کہ یہ جنگ طویل ثابت ہو سکتی ہے۔

یوکرینی صدر کا خراج تحسین
ادھر یوکرینی صدر وولودیمیر ‍زیلنسکی نے روسی حملے کے سو دن مکمل ہونے کے موقع پر ملکی فوج کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی فوج کی قربانیاں یاد رکھی جائیں گی۔

عوام سے اپنے نشریاتی خطاب میں زیلنسکی نے کہا کہ جب چوبیس فروری کو روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا تو یہ بات کسی کے ذہن میں نہیں تھی کہ اس ریاست کی افواج اور شہری اتنے طویل عرصے تک اپنے ملک کا دفاع کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔

یوکرینی صدر نے مزید کہا کہ کئی عالمی رہنماؤں نے انہیں ملک سے فرار ہونے کا مشورہ بھی دیا تھا لیکن سو دن کے بعد نہ صرف وہ بلکہ تمام ملک ہی سرخرو رہا ہے۔ زیلنسکی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اس جنگ میں یوکرین فاتح رہے گا۔

جرمنی مناسب ثالث نہیں
دریں اثنا جرمن حکمران جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے رکن رولف موئٹزنش نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں یوکرین جنگ میں جرمنی کییف اور ماسکو کے مابین مناسب ثالث کا کردار ادا نہیں کر سکتا ہے۔

موئٹزنش نے اصرار کیا کہ اب اقوام متحدہ کے رکن ایسے ممالک کو قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے، جو ابھی تک روسی جارحیت کے باوجود ماسکو حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کر رہے ہیں۔

انہوں نے اپنی دلیل کو صحت مند بنانے کے لیے مزید کہا، ”اس تنازعے میں جرمنی مشکل سے ہی کوئی ثالثی کر سکتا ہے۔ کیونکہ روسی حکومت کا خیال ہے کہ اس تنازعے کے آغاز سے ہی جرمنی نے ایک پوزیشن لے لی تھی۔‘‘

روس پر پابندیاں
جرمنی سمت متعدد یورپی ممالک اور امریکا روس پر پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ یورپی یونین کی بھی کوشش ہے کہ روس پر مالی پابندیاں عائد کرتے ہوئے اسے مذاکرات کی میز پر لائے۔

تاہم روس اس تنازعے کو اپنی قومی سلامتی کا معاملہ قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو یورپ کی مشرقی سرحدوں کی طرف اپنی توسیع پسندانہ سوچ بدلنا ہو گی۔

اپنے اسے مؤقف کے تحت ماسکو حکومت نے سابق سوویت ریاست یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ تاہم اس جنگ کو شروع ہوئے سو دن گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک روس اپنے مطلوبہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام ہی رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں