وطن نیوز انٹر نیشنل

معاشی بحران اور بجٹ

گزشتہ چند ماہ سے جاری سیاسی کشمکش کے باعث سب سے زیادہ نقصان ملکی معیشت کو ہوا ہے۔ آج سے دو، تین ماہ قبل پاکستان کے زیادہ تر معاشی اعشارئیے بہتری کی جانب گامزن تھے اور مختلف کاروباری سیکٹرز سے اچھی خبریں سننے کو مل رہی تھیں۔ محکمہ شماریات کے اعدادو شمار اس بات کے گواہ ہیں کہ رواں مالی سال کے پہلے 9ماہ میں پاکستان کی مجموعی برآمدات کا حجم 23.30ارب ڈالر رہا جوگزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 22فیصد زیادہ ہے۔

اس عرصے کے دوران سب سے زیادہ اضافہ ٹیکسٹائل گروپ کی برآمدات میں ہواہے جس کا مجموعی حجم 14.26ارب ڈالر رہا جو کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں تقریبا 22 فیصد بنتا ہے۔ برآمدات میں اضافے کا یہ سلسلہ مارچ 2022ء تک جاری رہا اور مارچ میں 2.74 ارب ڈالر کی مجموعی برآمدات ہوئیں جو پچھلے سال کے اسی عرصے کے دوران ہونے والی برآمدات سے 16فیصد زائد تھیں۔ مارچ میں ہونے والی برآمدات میں ٹیکسٹائل کا شیئر تقریبا 1.7 ارب ڈالر تھا۔ یہ اعداد وشمار اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل کی برآمدات کا حجم تقریبا 60 فیصد سے زائد ہے۔

اسی طرح ویلیو کے لحاظ سے ٹیکسٹائل گروپ میں نٹ وئیر کی برآمدات میں 33فیصد، ریڈی میڈ گارمنٹس میں 22فیصد، بیڈ وئیر میں 19فیصد، کاٹن کلاتھ میں 24فیصد، کاٹن یارن میں 41فیصد، ٹاولز میں 15فیصد ، میڈاپس میں 10فیصد، آرٹ سلک اینڈ سنتھیٹک ٹیکسٹائل میں 31فیصد ،مین میڈ فائبر میں سو فیصد اور کپاس کی برآمد میں 782فیصد اضافہ ہوا۔

اس دوران اچھی بات یہ رہی کہ روایتی مارکیٹس میں روائتی مصنوعات کی برآمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں تیار ہونے والی غیر روائتی مصنوعات کی درآمدات میں بھی 32 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ نئی منڈیوں میں کی جانیوالی درآمدات کے حجم میں بھی 80فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا۔ اس عرصے کے دوران امریکہ کو برآمدات میں 43 فیصد، چین کو 25فیصد، نیدرلینڈز کو 12، اسپین کو 29فیصد، بنگلہ دیش کو 70فیصد، تھائی لینڈ کو 278 فیصد، سری لنکا کو 51فیصد، ملائیشیا کو 90 فیصد او ر قازقستان کو برآمدات میں 229فیصد اضافہ ہوا۔

تاہم سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد دو ماہ کے عرصے میں بجلی کی طویل غیرعلانیہ لوڈشیڈنگ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے اور مہنگائی کی شرح میں تاریخی اضافے کی وجہ سے جہاں عام آدمی پریشان ہے وہیں کاروباری برادری بھی دوبارہ مایوسی کا شکار ہو گئی ہے اور بہت سے صنعتکاروں نے اپنے صنعتی یونٹس کی پیداواری استعداد بڑھانے کے لئے جو سرمایہ کاری کی تھی وہ بھی ڈوبتی نظر آرہی ہے۔

اس وقت حالات یہ ہیں کہ برآمدات میں سب سے زیادہ شیئر کے حامل ٹیکسٹائل گروپ خاص طور پر ایکسپورٹرز کے سر پر توانائی بحران کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ٹیکسٹائل کی برآمدات بڑھانے کیلئے گزشتہ حکومت نے اس سیکٹر کو جو خصوصی انرجی پیکیج دیا تھا اس کی قیمتیں بڑھانے کی باتیں ہو رہی ہیں جس سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ایک مرتبہ پھر خطے کے دیگر ممالک سے مسابقت کی دوڑ میں پیچھے چلی جائیگی۔ اس سلسلے میں اپٹما کی طرف سے جاری اعدادو شمار کے مطابق صرف بجلی اور گیس کی فراہمی میں تعطل کی وجہ سے 25 فیصد انڈسٹری بند ہو چکی ہے جبکہ پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے لگائے گئے نئے صنعتی یونٹس بجلی اور گیس کی عدم فراہمی کے باعث بند پڑے ہیں۔

موجودہ حکومت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر انڈسٹری کا پہیہ رکا تو لاکھوں مزدور بیروزگار ہو جائیں گے جس سے ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ حکومت کی یہ پالیسی بہتر کہی جا سکتی ہے کہ اس نے بیرونی قرضوں سے چھٹکارا پانے کیلئے ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کو بڑھانے پر توجہ دی جس کی وجہ سے ساڑھے تین سال کے مختصر عرصےمیں ایکسپورٹ 18ارب ڈالر سے بڑھ کر 32ڈالر پر پہنچ چکی ہے۔

اب اگر حکومت نےانڈسٹری کے لئے بجلی اور گیس کی قیمتوں کو بڑھایا تو اس سے ایکسپورٹ بتدریج کم ہونا شروع ہوجائے گی جس سے ملک کی معاشی حالت مزید کمزور ہو جائے گی اور پاکستان کی خودمختاری بھی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی محتاج رہے گی۔ ان حالات میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری ایک ایسا چیلنج تھا کہ جس سے نبردآزما ہونے کے لئے حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا انتہائی ضروری تھا۔ بجٹ کے حوالے سے اب تک جو خبریں سننے میں آ رہی ہیں ان کے مطابق اگلے مالی سال کے وفاقی بجٹ کو گروتھ و ریونیو اورینٹڈ بجٹ کے طور پر تیار کیا جارہا ہے بجٹ میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دینے کیلئے خام مال پر ڈیوٹی و ٹیکسوں میں کمی کی تجاویز ہیں تاہم تجارتی خسارے میں کمی لانے اور درآمدی بل نیچے لانے کیلئے لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی اور ڈیوٹی و ٹیکسوں کی شرح بڑھانا بھی انتہائی ضروری ہے۔

علاوہ ازیں برآمدات میں اضافے کے لئے درآمدی خام مال پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ مینوفیکچررز کیلئے ٹیکس ایٹ سورس کی شرح کو کم کرے کیونکہ زائد ریٹ کے باعث ری فنڈز میں تاخیر سے انڈسٹری کو سرمائے کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انڈسٹری کیلئے تیل اور گیس کی قیمتوں کو خطے کے دیگر ممالک سے بہتر مسابقت کیلئے طویل المدت بنیادوں پرطے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کار اعتماد کے ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں