وطن نیوز انٹر نیشنل

تائیوان: جنگی مشقوں کے بعد چین کا باضابطہ فوجی گشت کا منصوبہ


تائیوان: جنگی مشقوں کے بعد چین کا باضابطہ فوجی گشت کا منصوبہ
بیجنگ کا کہنا ہے کہ اس نے تائیوان کے آس پاس اپنی بڑی پیمانے کی فوجی مشقیں ‘کامیابی سے مکمل’ کر لی ہیں۔ اسپیکر نینسی پیلوسی کے دورے کے رد عمل میں اس نے ایک بار پھر سے خود مختار جزیرے کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔
چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نے بدھ کے روز تائیوان کے آس پاس اپنی فوجی مشقوں کے مکمل ہونے کا اعلان کیا، تاہم ساتھ میں اس نے یہ بھی کہا کہ مستقبل میں ایسی مزید مشقوں کے لیے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔
امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے تائی پے کے متنازعہ دورے کے بعد چین نے تائیوان کے آس پاس اب تک کی اپنی سب سے بڑی فوجی مشقیں شروع کی تھیں، جو گزشتہ روز مکمل ہوئیں۔
پیلوسی گزشتہ 25 برسوں میں تائیوان کا دورہ کرنے والی سب سے سینیئر امریکی اہلکار تھیں، جس پر چین نے شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ چین تائیوان کو اپنی ہی سرزمین کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔
چین نے کیا کہا؟
جنگی مشقوں کی تکمیل سے متعلق اپنے ایک مختصر اعلان میں پی ایل اے کی ایسٹرن تھیٹر کمانڈ نے کہا کہ وہ، ”آبنائے تائیوان کی صورت حال میں ہونے والی تبدیلیوں پر مسلسل نظر رکھے گا۔”
اس کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز لبریشن آرمی، ”لڑائی کے لیے تربیت اور تیاری کا عمل جاری رکھے گی، آبنائے تائیوان کی سمت میں جنگی تیاریوں کے لیے گشت کو باقاعدہ منظم کرے گی، اور قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا پختہ دفاع کرے گی۔”
تائیوان سے متعلق کابینہ کے دفتر کی طرف سے انگریزی زبان میں بھی ایک بیان جاری کیا گیا، جس میں پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا کہ بیجنگ تائیوان اور چین کے ”پرامن اتحاد” کے حصول کے لیے پر عزم ہے۔
اس کا مزید کہنا تھا، ”تاہم ہم طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کریں گے اور اس سلسلے میں ہم تمام ضروری اقدامات کرنے کا اختیار محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ بیرونی مداخلت اور تمام طرح کی علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں سے بچنے کے لیے ہے۔”
چین نے اپنے بیان میں، ”بیرونی قوتوں کی مداخلت یا علیحدگی پسند عناصر کی جانب سے کسی غیر متوقع کارروائی” کے خلاف طاقت کے استعمال کی بھی دھمکی دی ہے
چین نے تائیوان پر عسکری دباؤ بڑھا دیا
بیجنگ کا کہنا ہے کہ اس کے تمام اقدامات گزشتہ ہفتے نینسی پیلوسی کے تائیوان کے دورے کے رد عمل میں شروع کی گئی تھیں۔ لیکن تائی پے کا اصرار ہے کہ مغربی ممالک کے حکام کی جانب سے اس طرح کے دورے معمول کی بات ہیں اور اس نے چین پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اس دورے کو فوجی خطرات میں اضافے کے لیے بطور بہانہ استعمال کر رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بدھ کی سہ پہر کے بعد بھی آبنائے تائیوان میں قائم ایک غیر سرکاری بفر زون یا ”میڈین لائن” کے قریب چینی بحریہ کی سرگرمیاں جاری تھیں۔ تائی پے کا یہ بھی کہنا ہے کہ 17 چینی جنگی طیاروں نے اس درمیانی لائن کو عبور کیا۔
ادھر تائیوان کی وزارت دفاع کے ترجمان نے بدھ کے روز کہا کہ تائی پے نے، ”دشمن کی جانب سے خطرے جیسے عوامل کی بنیاد پر افواج کی تعیناتی کو مکمل طور پر ایڈجسٹ کرنے کا حکم دیا ہے۔”
برطانیہ میں چینی سفیر کی طلبی
دریں اثنا لندن میں برطانوی وزیر خارجہ لز ٹرس نے تائیوان کے خلاف بیجنگ کے اقدامات پر برطانیہ میں چینی سفیر زینگ زیگوانگ کو طلب کیا۔ ٹرس نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ ”حالیہ مہینوں میں، ہم نے بیجنگ کی جانب سے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویے اور بیان بازی کو دیکھا ہے، جس سے خطے میں امن اور استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔”
بیان میں کہا گیا، ”برطانیہ چین پر زور دیتا ہے کہ وہ بغیر کسی دھمکی یا طاقت یا جبر کے استعمال کے، کسی بھی قسم کے اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرے۔”
تاہم لندن میں چینی سفارت خانے نے برطانیہ کے اس بیان کو مسترد کر دیا۔ اس نے کہا کہ ”امریکی ایوان کی اسپیکر کے دورہ تائیوان کے بارے میں چین کے جائز اور ضروری رد عمل سے متعلق جو بھی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی ہے” اس کی پوری طرح سے مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کرتے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اپنا تبصرہ بھیجیں