وطن نیوز انٹر نیشنل

یورپی یونین سے تارکین وطن کی ملک بدریوں میں پھر واضح اضافہ

یورپی-یونین-سے-تارکین-وطن-کی-ملک-بدریوں-میں-پھر-واضح-اضافہ-–-یورپی یونین سے تارکین وطن کی ملک بدریوں میں پھر واضح اضافہ .
یورپی یونین کے رکن ستائیس ممالک نے مجموعی طور پر اپنے ہاں سے پناہ کے متلاشی تارکین وطن کی ملک بدریوں میں پھر اضافہ کر دیا ہے۔ اس سال اپریل سے جون تک ایسے قریب ایک لاکھ غیر ملکی شہریوں کی ملک بدری کے آرڈر جاری کیے گئے۔
یورپی یونین کے شماریاتی ادارے یوروسٹَیٹ کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سال رواں کی دوسری سہ ماہی میں اس بلاک کے رکن ممالک نے مجموعی طور پر اپنے ہاں مقیم اور پناہ کے درخواست دہندہ تقریباﹰ ایک لاکھ غیر ملکیوں کو ان کی درخواستیں مسترد ہو جانے کے بعد ملک بدر کر دینے کا حکم جاری کر دیا۔
بہت بڑی اکثریت یورپی یونین سے باہر کے ممالک کی شہری
یوروسٹَیٹ کے مطابق یورپی یونین میں تارکین وطن کی ملک بدریوں کے احکامات کا اجرا ایک بار پھر تیز ہو گیا ہے۔ اس سال یکم اپریل سے تیس جون تک کے عرصے میں یونین کی رکن ریاستوں سے مجموعی طور پر 23 ہزار 110 تارکین وطن کو ملک بدر کیا گیا۔
یورپ میں انسانوں کی اسمگلنگ جعلی سفارتی پاسپورٹوں کے ذریعے.
ان میں سے کئی تارکین وطن ایسے بھی تھے، جنہیں یونین کے کسی ایک رکن ملک نے کسی ایسے دوسرے رکن ملک بھیج دیا، جہاں سے وہ اس ملک میں داخل ہوئے تھے، جہاں ان کی درخواستیں مسترد ہو گئی تھیں۔
اس کے علاوہ رواں برس کی دوسری سہ ماہی میں مجموعی طور پر 96 ہزار 550 ایسے تارکین وطن کو بھی ملک بدر کر کے ان کے آبائی ممالک بھیجے جانے کے احکامات جاری کر دیے گئے، جن کا تعلق یورپی یونین سے باہر کے ممالک سے تھا۔ ان میں بڑی تعداد ایشیائی اور افریقی ممالک کے شہریوں کی بھی تھی۔اٹلی میں تارکین وطن کی ملک بدری کے احکامات جاری کیے جانے میں دو ہزار فیصد اضافہ، جن میں بہت بڑی تعداد میں پاکستانی شہری بھی شامل ہیں.
ایک سال پہلے کے مقابلے میں پندرہ فیصد اضافہ.
یوروسٹَیٹ کے تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق یورپی یونین کی رکن ریاستوں نے اس سال کی دوسری سہ ماہی میں جن تارکین وطن کی ملک بدری کے احکامات جاری کیے، ان کی تعداد گزشتہ برس کی اسی سہ ماہی کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ بنتی ہے۔
پاکستان، افغانستان اور شام سے ہزاروں افراد کی اسمگلنگ کرنے والا نیٹ ورک گرفتار.
اس کے علاوہ اس سال یکم اپریل سے لے کر 30 جون تک جن تارکین وطن کو عملی طور پر ملک بدر کیا گیا، ان کی تعداد بھی 2021ء کی دوسری سہ ماہی کے مقابلے میں تقریباﹰ 11 فیصد زیادہ رہی۔
کس یورپی ملک سے کتنے تارکین وطن کی ملک بدری؟
رواں برس کی دوسری سہ ماہی میں یورپی یونین کے رکن جس ملک نے اپنے ہاں سے تارکین وطن کی ملک بدری کے سب سے زیادہ احکامات جاری کیے، وہ فرانس تھا۔ وہاں ایسے 33 ہزار 450 سرکاری آرڈرز جاری کیے گئے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر یونان رہا، جہاں حکام نے 8,750 تارکین وطن کو ملک بدر کر دینے کے احکامات جاری کیے۔
یورپ کا خوفناک سفر: دو نوجوان لڑکیوں کی کہانی
یورپی یونین کے رکن ممالک سے اس وقت تارکین وطن کی ملک بدری کے واقعات میں واضح اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے..
اس فہرست میں یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک جرمنی تیسرے نمبر پر رہا، جہاں پناہ کے ناکام درخواست دہندہ 8,275 تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے آرڈر جاری کیے گئے۔ اس فہرست میں اٹلی اپنے ہاں سے تارکین وطن کی ملک بدری کے 6,020 احکامات کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا۔
رواں برس کی دوسری سہ ماہی میں جن یورپی ممالک نے اپنے ہاں سے تارکین وطن کو سب سے بڑی تعداد میں عملاﹰ ملک بدر کیا، ان میں فرانس 3,590 تارکین وطن کے ساتھ پہلے اور جرمنی 2,765 ملک بدریوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔
بیلاروس کے راستے گیارہ ہزار سے زائد تارکین وطن جرمنی پہنچے..
دیگر ممالک میں سے اسی عرصے میں سویڈن نے پناہ کے متلاشی 2,380 غیر ملکیوں اور یونان نے 1,770 تارکین وطن کو ملک بدر کر کے واپس ان کے ممالک میں بھیج دیا۔یورپی یونین سے ملک بدر کیے گئے ایسے غیر ملکیوں میں سب سے زیادہ تعداد البانیہ، جارجیا، روس اور ترکی کے شہریوں کی تھی۔
اٹلی سے ملک بدری کے احکامات میں دو ہزار فیصد اضافہ..
بحیرہ روم کے کنارے واقع یورپی یونین کے رکن ملک اٹلی نے اس سال کی دوسری سہ ماہی میں یہ بھی کیا کہ وہاں سے تارکین وطن کی ملک بدری کے احکامات جاری کیے جانے کے واقعات میں 2000 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
پاکستانیوں کو یورپی یونین پہنچانے والا اسمگلروں کا بڑا گروہ گرفتار.
اس سال یکم اپریل سے تیس جون تک اطالوی حکام نے ایسے 6,020 احکامات جاری کیے۔ اس سے قبل اسی سال یکم جنوری سے اکتیس مارچ تک کی پہلی سہ ماہی میں وہاں ایسے صرف 260 آرڈر جاری کیے گئے تھے۔اٹلی میں جن غیر ملکیوں کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو جانے کے بعد ان کی ملک بدری کے احکامات جاری کیے گئے، ان میں سے سب سے بڑی تعداد الجزائر، مراکش، البانیہ اور پاکستان کے شہریوں کی تھی۔

م م / ش ر (ڈی پی اے، روئٹرز)

اپنا تبصرہ بھیجیں