وطن نیوز انٹر نیشنل

کون سی کمپنی چلے گی؟

ایک طویل مشق کے بعد بالآخر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انسداد منی لانڈرنگ سمیت دیگر بل منظورہوگئے‘ جو حکومت کے لیے تو اچھی خبر ہے لیکن اس قانون سازی کا ہونا پاکستان کے لیے زیادہ اہمیت کاحامل ہے کیونکہ 2018 ء سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے اور ہمارے دشمن ممالک اور دوستوں کے روپ میں چھپے کچھ اور ممالک ہمیں بلیک لسٹ میں ڈلوانے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ مخلص دوست ممالک ایسا نہیں ہونے دے رہے ورنہ ایف اے ٹی ایف کے آخری اجلاس میں ہم صرف ایک ووٹ کے فرق سے وائٹ لسٹ میں نہ جاسکے۔ چین‘ ترکی اور ملائیشیا نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے ووٹ دیا اور افسوسناک خبر یہ ہے کہ ہمارے ایک انتہائی برادر ملک نے ایک بڑے ملک کے کہنے پر ہمارے حق میں ووٹ نہ دیا اور پاکستان کو وارننگ جاری کردی گئی ۔ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو پھنسانے میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے وزیراعظم عمران خان واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے براہ راست بات کرچکے تھے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی عسکری قیادت سے بھی بات کی۔ صدر ٹرمپ نے وعدہ بھی کیا کہ وہ امریکی حکام سے پاکستان کی مدد کرنے کو کہیں گے اور انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری بھی کیں‘ لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کی کوئی مدد نہ کی بلکہ گرے لسٹ میں رکھنے کے معاملے کو لے کر ہمیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی‘ جو آج تک جاری ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے پھر امریکی حکام سے بات کی اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ہمیں اس وقت بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ کو جب ان کا وعدہ یاد دلایا گیا تو وہ بظاہر حیرت زدہ تھے کہ ابھی تک پاکستان کی مدد کیوں نہیں کی جاسکی۔ اس ملاقات میں صدر ٹرمپ نے پاکستانی قیادت کے سامنے متعلقہ امریکی حکام سے استفسار کیا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے اب تک کیوں نہیں نکالا جاسکا؟
سارا پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہمیں رکھنا اور نہ نکالنا ایک سکرپٹڈ سازش تھی‘ جس کی منصوبہ بندی سوچ سمجھ کر کی گئی۔گرے لسٹ میں ڈالنے کا مطلب ہے کہ پاکستان منی لانڈرنگ کرنے اور ٹیرر فنانسنگ کرنے والے ممالک میں ہے ۔ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے حکومت متعدد اقدامات کرچکی ہے جس کی ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں ستائش بھی کی جاتی رہی‘ لیکن ہر اجلاس کے نتیجے میں ڈومور کا مطالبہ سامنے آیا اور آخری ہونے والے اجلاس میں انسدادِ منی لانڈرنگ سے متعلق قانون سازی کا تقاضا کیا گیا جسے ہر حال میں پورا کرنا لازمی تھا۔ حکومت کا خیال تھا کہ اپوزیشن اس سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی‘ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا بلکہ طویل ترین مذاکرات ہوئے اور جب انسدادِ منی لانڈرنگ بل فائنل ہوگیا تو عین آخری وقت پر اپوزیشن نے اپنا کارڈ شو کیا اور نیب آرڈیننس میں ترامیم کا مطالبہ کردیا۔ وزیراعظم عمران خان کو اپوزیشن کے مطالبے سے آگاہ کیا گیا‘ انہوں نے اپوزیشن سے مذکورہ مسودہ لینے کا کہا اور جب حکومتی ارکان کے پاس اپوزیشن کا تجویز کردہ نیب آرڈیننس میں ترامیم کا مسودہ آ گیا تو وزیراعظم نے ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کا بل مسترد کردیا‘ جس کے نتیجے میں اپوزیشن نے انسداد منی لانڈرنگ بل سینیٹ سے منظور نہ ہونے دیا۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا بھی ضروری تھا؛ چنانچہ ریاست کے بڑے بزرگوں کو بیچ میں آنا پڑا۔ طویل نشستیں ہوئیں‘ بات چیت چلتی رہی‘ مطالبات پیش کیے گئے ‘جائز مطالبات ماننے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ‘لیکن اپوزیشن کے مطالبات بڑھتے گئے اور اصولی سے زیادہ فوری وصولی کا رجحان بڑھتا گیا ۔ جو رعایتیں طلب کی جارہی تھیں وہ تمام کی تمام ایسی تھیں کہ کسی بھی طریقے سے شریف فیملی قیادت کی نااہلی ختم ہوجائے اور کم از کم اتنا ضرور ہوجائے کہ وہ انتخابی سیاست کے اہل ہوجائیں۔ زرداری اور بھٹو فیملی کے مطالبات بھی اسی نوعیت کے تھے۔ نیب زدہ قیادت کا رویہ جارحانہ ہوا تو معاملات خراب ہوگئے‘ بزرگوں نے بہت سمجھایا کہ ایسے مطالبات نہ کریں بلکہ اجتماعیت کے ساتھ چلیں‘ بالآخر معاملہ پھر سول و عسکری بزرگوں کے پاس پہنچا اور وہاں پرطویل بحث کے بعد اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں اپوزیشن کی بلیک میلنگ قبول نہیں کی جائے گی۔ وزیراعظم اور دو دیگر بزرگوں کی طرف سے مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ ہوا اور معاملہ ٹیڑھی انگلی سے حل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر قانون سازی کرنے کیلئے فیصلہ ہوا۔ اس دوران کراچی پیکیج بھی منظور کیاگیا‘ لیکن اس کے اثرات بھی چند روز سے زیادہ نہ رہ سکے؛ البتہ پی پی پی اور( ن) لیگ نے بارگیننگ کا دروازہ کھلا رکھا‘ جس کے بعد دونوں جماعتوں کی درمیان شکوک وشبہات نے جنم لیا اور اپوزیشن نے ڈیل کرنے کیلئے الگ الگ بات چیت بھی کی‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی کو بھی کچھ نہ ملا اور پھر صادق سنجرانی فارمولا دوبارہ آزمایا گیا۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا اور اہم قانون سازی پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اپوزیشن کے 34ارکان غیر حاضر رہے جن کے نام ڈھکے چھپے نہیں اور یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ دونوں جماعتوں میں سے ایک جماعت کی قیادت کو یہ معلوم تھا کہ ان کے ارکان غیر حاضر ہوں گے اور انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا ‘جبکہ یہ بھی اہم بات ہے کہ کچھ ارکان اعلانیہ طور پر اپنی قیادت سے تنگ آچکے ہیں اور انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر غیر حاضری کا آپشن اختیار کیا۔ ریاست کے بزرگوں کو اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ اب ان کمپنیوں کے ساتھ بات نہیں ہوسکتی کہ یہ پرانی کمپنیاں اس ملک کو دیوالیہ کرچکی ہیں اور مزید کرنا چاہتی ہیں۔ یہ کمپنیاں چاہتی ہیں کہ ان کو مادر پدر آزاد چھوڑ دیاجائے‘ یہ کمپنیاں یہ بھی نہیں چاہتیں کہ کوئی نئی کمپنی اپنا کردار ادا کرے اور پاکستان کے عوام کے پاس نئی کمپنی کی چوائس ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پرانی کمپنیوں کے مالکان نئی کمپنی کے بزرگوں کے ساتھ خلوتوں میں ملتے ہیں‘ رعایتیں طلب کرتے ہیں محفوظ راستے مانگتے ہیں اور منت ترلے بھی کرتے ہیں۔ باقاعدہ رات کی تاریکی میں مذاکرات کرتے ہیں اور پرانی کمپنیوں کے یہ مالکان انہی راہداریوں سے چل کر اپنی کمپنیاں رجسٹرڈ کراتے رہے‘ لیکن جب سے ایک نئی کمپنی آئی ہے تب سے ناکامی کی گردان پڑھی جارہی ہے ۔ہاں البتہ یہ کمپنی بہت اچھی ہوسکتی ہے اور اس کمپنی کے بزرگ بہت اچھے ہوسکتے کہ جب ان پرانی کمپنیوں پر دوبارہ دستِ شفقت رکھ دیا جائے اور نئی کمپنی کو فارغ کردیا جائے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کے نتائج کے بعد اپوزیشن کی صفوں میں کافی حد تک مایوسی اور بدگمانی پائی جاتی ہے۔ ریاست کے بزرگ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں اپوزیشن اور دشمنوں کا رویہ ایک جیسا دیکھ کر کافی افسوس ہوا اور جو سوچ رہے تھے کہ پرانی کمپنیاں اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں‘ غلط ثابت ہوا۔ اس لیے فی الحال یہی لگتا ہے کہ اب کسی کمپنی کو ریاست سے بڑا ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ریاستی امور کو آگے بڑھایا جائے گا‘ کیونکہ اس وقت علاقائی سکیورٹی کی صورتحال چین بھارت تنازع اور افغانستان میں جاری امن معاہدے کے مثبت یا منفی اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے‘ لہٰذا سب کی آنکھیں کھلی ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں