وطن نیوز انٹر نیشنل

’شیرِ پنجشیر‘ احمد شاہ مسعود کا قتل: ’صحافیوں نے کیمرہ سامنے رکھا اور پھر ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی‘

مسعود شاہ

مضمون کی تفصیل

  • مصنف,ریحان فضل
  • عہدہ,بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

دو سال پہلے تک اگر آپ کابل کے ہوائی اڈے پر اترتے تو سب سے پہلے جس چیز پر آپ کی نظر پڑتی وہ وہاں آویزاں احمد شاہ مسعود کا ایک بڑا پوسٹر تھا۔

یہی نہیں بلکہ کابل کا ایک مرکزی چوک بھی ان کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ان کی برسی نو ستمبر کو پورے افغانستان میں ’یوم مسعود‘ کے طور پر منائی جاتی ہے۔

تاہم اب طالبان کی اقتدار میں واپسی سے سب کچھ بدل گیا ہے۔ سب سے پہلے کابل ایئرپورٹ پر نصب ان کی تصویر کو اکھاڑ پھینکا گیا اور ان کے نام سے منسوب جگہوں کے نام بھی تبدیل کر دیے گئے۔

لیکن افغانستان میں بہت سے لوگوں کے لیے وہ اب بھی قومی ہیرو ہیں۔ امریکی مصنف رابرٹ کپلان نے ان کا موازنہ ایک گوریلا کمانڈر کے طور پر ماؤ اور چی گویرا سے کار

اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی سوانح عمری افغان نپولین، دی لائف آف احمد شاہ مسعود کی مصنفہ سینڈی گال لکھتی ہیں کہ ’یہاں تک کہ ان کے روسی مخالفین نے بھی اپنے حریف کی ہمت کی تعریف کی، جس نے آٹھ سالوں میں کم از کم نو روسی حملوں کو پسپا کر دیا تھا۔

’وہ طالبان کے سب سے بڑے مخالف تھے۔ دنیا کے بہت سے لوگوں نے ہمیشہ ان کی دانشمندی، عاجزی، ہمت اور فارسی ادب پر دسترس کی تعریف کی۔ 22 سے 49 سال کی عمر تک ان کی ساری زندگی لڑائی میں گزری۔‘

طالبان کیمپ سے زندہ واپس آئے

دبلے پتلے جسم کے احمد شاہ مسعود نے ہمیشہ باوقار زندگی گزاری اور بہادری کی کئی مثالیں قائم کیں۔ 25 سال تک انھوں نے قیادت اور حکمرانی کی دیگر افغان کمانڈروں سے کہیں بہتر مثال پیش کی۔ ان کا اخلاق بھی دوسروں سے بہت بہتر تھا۔

انھوں نے القاعدہ کے ساتھ کبھی معاہدہ نہیں کیا اور جہاں دیگر افغان مزاحمتی جنگجو غیر ملکی حمایت کی امید میں ملک چھوڑتے رہے احمد شاہ مسعود نے سوویت یونین کے قبضے کے دوران کبھی اپنا ملک نہیں چھوڑا اور انتہائی مشکل حالات میں پنجشیر میں لڑتے رہے۔

ذاتی طور پر انھوں نے سادہ زندگی گزاری۔ ان پر کبھی بھی اختیارات کے ناجائز استعمال یا بدعنوانی کا الزام نہیں لگایا گیا۔ ایک برطانوی افسر نے ان کا موازنہ مارشل ٹیٹو سے کیا، جو یوگوسلاویہ کی آزادی کے لیے لڑے تھے۔

سینڈی گال لکھتی ہیں کہ ’جب طالبان نے کابل کی طرف پیش قدمی کی تو اپنے ساتھیوں کے انکار کے باوجود وہ اکیلے طالبان کیمپ میں گئے تاکہ سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی جا سکے۔

’ان کے ساتھیوں کو ڈر تھا کہ طالبان وہاں جاتے ہی انھیں مار ڈالیں گے، لیکن یہ ان کی شخصیت کی وجہ سے تھا کہ وہ زندہ واپس آئے۔‘

تاہم احمد شاہ مسعود کو زندہ واپس جانے دینے پر ملا عمر نے اپنے کمانڈر کو برطرف کر دیا تھا۔

انھیں پڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ سنہ 1996 میں جب انھیں کابل چھوڑنا پڑا تو وہ دو ہزار کتابیں ساتھ لے گئے تھے۔

طالبان

طالبان کے سامنے ہمت نہیں

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطی

احمد شاہ مسعود نے روسیوں کے خلاف جنگ میں نہایت سادہ مگر مؤثر حکمت عملی اپنائی۔

اے آر روون اپنی کتاب ’آن دی ٹریل آف لائن احمد شاہ مسعود‘ میں لکھتے ہیں کہ ’روسی گڑھ پر راکٹ اور مارٹر گولے داغنے سے پہلے، انھوں نے ان کے داخلی اور خارجی راستوں پر لاتعداد بارودی سرنگیں بچھا دی تھیں، جن کی ان کے فوجیوں کو پیشگی اطلاع تھی۔

’کچھ وقت تو وہ پہلے سے بچھائی گئی بارودی سرنگوں سے بچتے ہوئے ان پر حملہ کرتے تھے۔ جب روسی فوجی حملے سے بچنے کے لیے مزید فوجی امداد بلاتے تھے تو وہ تمام بارودی سرنگوں سے بچتے تھے۔‘

صرف چند ماہ کی لڑائی کے بعد روسی فوجی وادی پنجشیر سے نکل گئے۔ بعد میں انھوں نے اس وادی پر نو بار حملہ کیا اور ہر بار مسعود نے انھیں واپس جانے پر مجبور کیا۔

طالبان بھی اپنی تعداد سے تین گنا کم ہونے اور مبینہ طور پر پاکستان سمیت دیگر اتحادی ممالک کی حمایت کے باوجود مسعود کو کبھی شکست نہیں دے سکے۔

مسعود نے وادی کے دہانے پر واقع سالنگ ٹنل کو بارود سے اڑا دیا اور ایک طرح سے خود کو اپنے ہی علاقے میں بند کر لیا۔ پھر وہ گاؤں گاؤں گئے اور لوگوں کو اپنے علاقے کی حفاظت کے لیے سب کچھ دینے کی ترغیب دی۔

روسی بمباری کے دوران بھی اپنا کام کرتے رہے

سینڈی گال روسی فضائی حملے کے وقت احمد شاہ مسعود کے قریب بیٹھی تھیں۔

سینڈی لکھتی ہیں کہ ’جب میں نے مسعود سے مصافحہ کیا تو سب سے پہلے جس چیز نے مجھے ان کی طرف متوجہ کیا وہ ان کی آنکھیں تھیں۔ وہ ایک ذہین آدمی کی آنکھیں تھیں۔ جو پختگی اس وقت ان کے چہرے پر تھی وہ 28 سال میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے یعنی ایک ہی وقت میں بوڑھے بھی اور جوان بھی۔

ان کے مطابق ’ہم بیٹھنے ہی والے تھے کہ روسی طیارے ہمارے سروں کے اوپر نمودار ہوئے۔ مسعود اور اس کے ساتھی تیزی سے قریبی گھر کی طرف بڑھے، انھوں نے مجھے اپنے پیچھے چلنے کا اشارہ کیا۔‘

انھوں نے لکھا ہے کہ ’بمباری کے دوران چائے پیتے ہوئے مسعود نے کچھ خطوط پڑھے اور ان کے جوابات لکھے، ان کے انداز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ حکم دے رہے ہوں، میں ان کے اعتماد اور بے خوفی سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔

’انھیں صورت حال پر مکمل کنٹرول تھا۔ مسعود نے کبھی انگریزی نہیں سیکھی تھی لیکن وہ بہت روانی سے فرانسیسی بولتے تھے۔‘

Masood

اسامہ نے قاتلوں کو صحافی بنا کر بھیجا تھا

اسامہ بن لادن بھی شروع میں ان کے ساتھ روسیوں کے خلاف لڑائی میں شامل تھے لیکن بعد میں ان کے مسعود سے گہرے اختلافات ہو گئے اور یہی ان کے قتل کی وجہ بنی۔

اگست 2002 میں دو عرب صحافی احمد شاہ مسعود کا انٹرویو کرنے آئے۔ ان کے پاس بیلجیئم کا پاسپورٹ تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ انھوں نے وہ پاسپورٹ بیلجیئم کے سفارت خانے سے چرائے تھے۔ دراصل انھیں القاعدہ نے مسعود کو مارنے کے لیے بھیجا تھا۔

ان میں سے ایک کا نام عبدالستار دھمانے تھا جن کی عمر 39 سال تھی۔ دوسرے شخص کا نام بواری القیر تھا۔ ان کی عمر 31 سال تھی۔ وہ ایک مضبوط جسم کا مالک تھے اور باکسر جیسے لگتے تھے۔ دونوں کی داڑھی نہیں تھی اور دونوں نے شرٹ اور ٹراؤزر پہن رکھے تھے۔ مسعود کے حکم پر ایریا کمانڈر بسم اللہ خان نے انھیں چیک پوائنٹ پر لینے کے لیے گاڑی بھیجی تھی۔

ایک ماہ قبل پشتون رہنما عبدالرسول سیاف کو اپنے ایک پرانے مصری دوست ابو ہانی کا فون آیا کہ وہ کسی طرح ان دونوں عرب دوستوں کو احمد شاہ مسعود کا انٹرویو کرنے کے لیے لے جائیں۔ دونوں پہلے لندن سے اسلام آباد گئے اور پھر وہاں سے کابل پہنچے۔ وہاں سے وہ پنجشیر آئے جہاں کچھ دن وہ عبدالرسول سیاف کے مہمان رہے۔

OBL

پراسرار خاموش قاتل

سکاٹ لینڈ یارڈ کو بعد میں جاری کردہ ایک بیان میں امر اللہ صالح نے کہا کہ ’پنجشیری ڈرائیور نے افغان حکام کو بتایا کہ دونوں افراد انھیں احتیاط سے گاڑی چلانے کا کہہ رہے تھے کیونکہ ان کے پاس حساس آلات تھے۔‘

اس علاقے کے کمانڈر بسم اللہ خان نے یہ بھی بتایا کہ اگرچہ ان دونوں کی داڑھی نہیں تھی، لیکن ان کی ٹھوڑی کے قریب کی جلد پیلی تھی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید کچھ عرصہ پہلے ان کی بڑی داڑھی تھی، جسے انھوں نے حال ہی میں تراش لیا تھا۔

تاہم انھوں نے اس پہلو کو اس وقت نظرانداز کر دیا تھا۔ عبدالرسول سیاف کے ساتھ کچھ دن رہنے کے بعد ان صحافیوں کو وادی لایا گیا اور آستانہ میں مسعود کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا۔ یہیں ایک برطانوی سیاح اور مصنف میتھیو لیمنگ نے ان سے ملاقات کی۔

میتھیو نے بعد میں ’دی سپیکٹیٹر‘ میں ’بریک فاسٹ ود دی کلرز‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا کہ ’یہ دونوں مجھے خاموش طبیعت کے پراسرار لوگ لگ رہے تھے۔ کھانے کی میز پر جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ مراکش۔۔ لیکن وہ رہتے بیلجیئم میں ہیں۔ ان کے مطابق ’جب میں نے مراکش کی سیاحتی اہمیت پر بات کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے اس گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ وہ چاول اور گوشت کھاتے رہے۔‘

میتھیو لکھتے ہیں کہ ایک دو دن کے بعد جب وہ مجھ سے تھوڑے بے تکلف ہوئے تو انھوں نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس جنرل مسعود کا نمبر ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں، مجھے نہیں لگتا کہ وہ اپنا نمبر کسی کو دیتے ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کو کیوں چاہیے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ’اپنی ٹی وی فلم کے لیے‘ وہ انھیں ملنا چاہیں گے۔

آخر کار کال مل گئی

اس وقت مسعود کے پرانے دوست مسعود خلیلی انڈیا میں افغانستان کے سفیر ہوا کرتے تھے۔ پانچ ستمبر 2001 کو وہ قازقستان کے وزیر خارجہ سے ملاقات کے لیے دہلی سے الماتی روانہ ہوئے۔ مسعود نے انھیں بلایا اور ملاقات کی دعوت دی۔

سات ستمبر کو مسعود خلیلی الماتی سے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے روانہ ہوئے۔ خلیلی اپنے ہوٹل میں سونے کے لیے جانے ہی والے تھے کہ امر اللہ شاہ نے انھیں فون کیا اور کہا کہ مسعود آ چکے ہیں اور فوراً ان سے ملنا چاہتے ہیں۔

خلیلی نے اپنے سونے کے کپڑے اتارے، دوسرے کپڑے پہن لیے اور مسعود کے بھتیجے اور ملٹری اتاشی ودود کے ساتھ مسعود کی کالی بلٹ پروف مرسیڈیز کار میں سوار ہو کر ان کے گھر پہنچے۔

خلیلی نے سکاٹ لینڈ یارڈ کو دیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ’میں اور مسعود، کشمیر اور انڈیا میں دہشت گردی کے بارے میں بات کرتے رہے، رات 12.30 بجے میں نے مسعود سے روانگی کی اجازت لی، وہ باہر مجھ سے ملنے آئے جو غیر معمولی تھا۔

’مجھے ان کے لوگوں نے بتایا کہ اگلے دن ہم دس سے 11 بجے کے درمیان افغانستان کے لیے پرواز کریں گے۔ خواجہ بہاؤ الدین تک پرواز کو 40 منٹ لگے، اس دوران میں نے کمانڈر کی کئی تصاویر لیں۔

شام کو وزارت خارجہ کے پروٹوکول افسر عاصم آئے اور مسعود سے پوچھا کہ ’کیا آپ عرب صحافیوں سے ملنا پسند کریں گے؟ انھیں شمالی اتحاد کے علاقے میں آئے ہوئے تقریباً ایک ماہ ہو گیا ہے اور وہ پچھلے نو دنوں سےافغانستان میں خواجہ بہاؤ الدین میں آپ سے ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔‘

Ambassador

مسعود سے پوچھنے کے لیے پہلے سے دیے گئے سوالات

احمد شاہ مسعود نے انھیں اگلے دن ملاقات کا وقت دیا۔ اس رات وہ اور خلیلی ساتھ رہے۔ رات ڈیڑھ بجے تک وہ ایک دوسرے کو نظمیں سناتے رہے۔ اگلے دن گیارہ بجے کے قریب احمد شاہ اپنے دفتر پہنچے۔

مسعود خلیلی نے سکاٹ لینڈ یارڈ کو بتایا کہ ’احمد شاہ نے خاکی قمیض اور ملٹری طرز کی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ مجھے اپنا نیا پاسپورٹ کچھ دن پہلے ملا تھا۔ جب میں نے انھیں دکھایا تو انھوں نے کہا کہ میں اسے اپنی جیب میں رکھوں۔‘

مسعود نے کہا کہ دو عرب صحافی دو ہفتوں سے میرا انتظار کر رہے ہیں، میں نہانے جا رہا تھا لیکن مسعود نے مجھے یہ کہہ کر روک دیا کہ یہ انٹرویو صرف پانچ سے دس منٹ کا ہو گا۔

خلیلی کا مزید کہنا تھا کہ ’انٹرویو کے دوران میں مسعود کے دائیں جانب بیٹھا تھا، میں ان کے اتنا قریب تھا کہ ان کا کندھا میرے ہاتھ سے لگا تھا، میں نے انٹرویو لینے والے سے پوچھا کہ آپ کس اخبار سے ہیں؟‘ انھوں نے جواب دیا کہ ’میں کسی اخبار سے نہیں ہوں، میں یورپ کے اسلامک سینٹر سے ہوں۔‘

میں نے مسعود سے کہا کہ یہ صحافی نہیں ہیں، مسعود نے مجھے کہنی سے ہلکا سا دھکا دیا اور کہا، انھیں کام کرنے دو، پھر مسعود نے اس سے پوچھا کہ کتنے سوال پوچھیں گے؟ انٹرویو لینے والے نے ایک صفحہ نکالا اور اپنے سوالات کو پڑھنا شروع کیے۔ کل 15 سوالات تھے جن میں سے 8 سے 9 سوالات اسامہ بن لادن سے متعلق تھے۔

Ahmad Shah Masood

بم قاتل کی بیلٹ میں چھپایا گیا تھا

ان کا پہلا سوال یہ تھا کہ افغانستان کے حالات کیسے ہیں؟ خلیلی نے جیسے ہی اس کا ترجمہ کیا تو ایک خوفناک دھماکہ ہوا۔

خلیلی نے کہا کہ ’میں نے دھماکے کی آواز نہیں سنی اور آگ کا ایک نیلا گولہ اپنی طرف آتے دیکھا۔ مجھے یاد ہے، میں ابھی ہوش میں تھا، مجھے اپنے سینے پر ایک ہاتھ محسوس ہوا، یہ احمد شاہ مسعود کا ہاتھ تھا۔‘

دھماکے سے پورا گھر لرز اٹھا۔ یہ دھماکہ اتنا زور دار تھا کہ احمد شاہ کے ساتھیوں عارف اور جمشید نے سوچا کہ وہاں طالبان نے فضائی حملہ کیا ہے۔ عرب قاتلوں نے کیمرہ مسعود کے بالکل سامنے رکھ دیا تھا لیکن حقیقت میں بم انٹرویو لینے والے قاتل کی بیلٹ میں چھپایا گیا تھا۔

مسعود کے تمام گارڈز بھاگ کر وہاں پہنچ گئے۔ مسعود نے تقریباً بے ہوشی کی حالت میں ان سے کہا کہ پہلے خلیلی کو اٹھاؤ۔ مسعود کو فوراً ایک کار میں لے جایا گیا جو تیزی سے اس کے ساتھ ہیلی پیڈ کی طرف بڑھ گئی۔

مسعود کے گارڈ عارف نے بعد میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’احمد شاہ مسعود کا خون بہہ رہا تھا، میں نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے دائیں ہاتھ کی ایک انگلی کا ایک چھوٹا سا حصہ کٹا ہوا تھا۔ مسعود، خلیلی اور دیگر زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے تاجکستان کے قریبی ہسپتال لے جایا گیا۔‘

سابق سفیر

انڈین ڈاکٹر نے مسعود کو مردہ قرار دے دیا

مسعود خلیلی نے بعد میں یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں ہیلی کاپٹر میں ہوں، میں نے تقریباً 10-15 سیکنڈ کے لیے اپنی آنکھ کھولی، میں نے مسعود کے چہرے اور بالوں پر خون دیکھا، اس کے بعد میں دوبارہ بے ہوش ہو گیا۔‘

آٹھ بجے کے بعد مجھے ہوش آیا۔ اس وقت تک مجھے جرمنی کے ایک ہسپتال لے جایا گیا تھا، میری بیوی نے مجھے بتایا کہ احمد شاہ مسعود اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

خلیلی کی بیوی نے جب ان کے سامان کو دیکھا تو اسے ان کا پاسپورٹ ملا، جسے احمد شاہ مسعود نے زبردستی اپنی قمیض کی اوپری جیب میں رکھا تھا۔

خلیلی نے بتایا کہ ’میری بیوی نے میرا پاسپورٹ کھولا۔ 15ویں صفحے تک کئی کیلیں اٹکی ہوئی تھیں۔ اس سے شاید میری جان بچ گئی۔ کاش کمانڈر نے وہ پاسپورٹ میری بجائے اپنی جیب میں رکھا ہوتا۔‘

مسعود جیسے ہی فرخار کے پاس پہنچے تو وہاں موجود ایک انڈین ڈاکٹر نے انھیں مردہ قرار دے دیا۔ ان کے محافظوں نے بتایا کہ احمد شاہ مسعود دھماکے کے چند منٹوں میں ہی دم توڑ گئے تھے۔

احمد شاہ مسعود

مسعود کے قتل کی خبر چھپائی گئی

اس حادثے کو کچھ دنوں کے لیے باقی دنیا سے پوشیدہ رکھا گیا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ طالبان اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شمالی محاذ کے خلاف نئی فوجی مہم شروع کر سکتے تھے۔

مسعود کو نائن الیون سے 48 گھنٹے پہلے قتل کر دیا گیا تھا لیکن نائن الیون کی وجہ سے اس واقعے پر زیادہ بحث نہیں ہو سکی۔

نیویارک

دونوں کی ٹائمنگ محض اتفاقیہ تھی کیونکہ القاعدہ کے قاتل کئی ہفتوں سے احمد شاہ مسعود کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ مسعود خلیلی کا خیال ہے کہ اس قتل کے پیچھے القاعدہ کا ہاتھ تھا۔

انھوں نے سکاٹ لینڈ یارڈ کو دیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’اسامہ بن لادن پورے افغانستان اور وسطی ایشیا میں ایک قسم کا مذہبی خلفشار پیدا کرنا چاہتے تھے، یہ احمد شاہ مسعود کو راستے سے ہٹائے بغیر ممکن نہیں تھا۔‘

ان کے مطابق ’اسامہ کو معلوم تھا کہ وہ نیویارک میں جو کچھ کرنے جا رہے ہیں، اس کے بعد اُنھیں سکیورٹی کی ضرورت ہو گی۔ کمانڈر مسعود کا قتل ایک طرح سے طالبان رہنما ملا عُمر کے لیے ایک تحفے سے کم نہیں تھا تاکہ مستقبل میں ضرورت پڑنے پر وہ اسامہ کو ضروری سکیورٹی فراہم کر سکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں