وطن نیوز انٹر نیشنل

مکہ معظمہ میں تبلیغ اسلام


تحریر : فقیر اللہ خاں
مدینہ کے عرب قبائل اوس اور خزرج دو سو سال سے یہودیوں کے ساتھ ایک ہی شہر میں رہ رہے تھے اور وہ نبوت، وحی، کتاب اللہ اور شریعت کے مفہوم سے بخوبی آشنا تھے۔آپؐ کی دعا سے مدینے کی آب و ہوا خوش گوار ہوگئیحضرت رسول کریم ﷺ مکہ معظمہ میں بیرون ملک سے آنے والوں میں اسلام کی تبلیغ فرماتے تھے.حضرت رسول پاک ﷺ مکہ معظمہ میں حج کے ایام میں باہر سے آنے والوں میں اسلام کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ یثرب سے قبیلہ اوس اور خزرج کے چھ آدمی عقبہ کی پہاڑی کے پاس آپؐ کو ملے۔ آنحضور ؐ نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید کی تلاوت فرمائی۔ یہ لوگ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے پڑوس میں رہا کرتے تھے اور ان کی نبوت اور انبیاء کے بارے میں آپس میں گفتگو کرتے اور توریت کی تلاوت کرتے ہوئے برابر دیکھتے اور سنتے تھے۔ ان سے وہ یہ بھی سنا کرتے کہ زمانہ قریب میں ایک اللہ کا نبیؐ آنے والا ہے۔ اوس اورخزرج سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے آپؐ سے ملاقات کے بعد، قرآن پاک کی تلاوت اور تبلیغ سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ اپنے شہر واپس جاکر انہوں نے اسلام کی خوب تبلیغ کی۔دوسرے سال حج کے موسم میں اوس اور خزرج قبائل کے بارہ (12) آدمی آپؐ سے عقبہ میں ملے۔ مکہ سے واپسی پر آپؐ نے ان کی درخواست پر اپنے ایک جلیل القدر صحابی حضرت مصعب بن عمیرؓ کو ان کے ساتھ روانہ کر دیا تا کہ وہ مدینہ کے لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کریں۔ ان کی کوششوں سے مدینہ میں لوگوں کو اسلام کے متعلق آگاہی ملی۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ نے گھر گھر جاکر اسلام کی دعوت دی۔ مدینہ سے آنے والے ان بارہ مسلمانوں کو تاریخِ اسلام میں انصار کے نام سے موسوم کیا گیا۔
اس سے اگلے سال ہجرت مدینہ سے ایک سال قبل حضرت مصعب بن عمیرؓ مکہ آئے تو انصارِ مدینہ کی ایک جماعت ان کے ہمراہ تھی۔ ان کی تعداد 73 تھی جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ آپؐ نے اپنے چچا حضرت عباسؓ کے ہمراہ ( جو اس وقت ابھی اسلام نہیں لائے تھے) ان لوگوں سے ملاقات کی۔آپؐ نے اُن سے بیعت لی کہ تم میری حفاظت اپنے اہل و عیال کی طرح کروگے۔ اُن لوگوں نے آپؐ سے بھی وعدہ لیا کہ آپؐ بھی ہمیں مدینہ آکر ہر طرح کا تحفظ فراہم کریں گے۔رفتہ رفتہ مدینہ میں اسلام کی تبلیغ سے لوگ متعارف ہو رہے تھے۔ اب آفتابِ اسلام کی ضیا پاشیوں سے مدینہ کے در و دیوار منور ہو رہے تھے، لیکن رؤسائے مکہ کو یہ بات نہایت گراں گزرتی تھی۔ آنحضرتؐ کی بعثت کو تیرہ سال مکمل ہو چکے تھے۔ ان تیرہ سالوں میں آنحضورؐ اور آپؐ کے صحابہ کرام ؓ کو جو صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، بیان سے باہر ہیں۔ آپؐ کو ہر وقت جان کا خطرہ لگا رہتا۔ایسے نازک مرحلہ میں اللہ نے دین کی مدد کے لیے اوس اور خزرج کو آپؐ کے شانہ بشانہ کھڑا کردیا۔ یہ یثرب کے دو بڑے قبائل تھے جو بعد میں ’’انصار‘‘ کے معزز لقب سے مشرف ہوئے۔ ان کے آباؤ اجداد300ق م میں سدّ ِ مآرب (یمن) کی تباہی کے بعد یثرب منتقل ہوئے تھے، گویا انہوں نے بھی ہجرت اختیار کی تھی۔ اس لیے وہ آنحضورؐ کی تکالیف اور پریشانیوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ اس بنا پر انہوں نے آپؐ کو مکہ سے مدینہ ہجرت کی دعوت دی۔ اوس اورخزرج کے یہ قبائل قریشِ مکہ کے بر خلاف نرم مزاج، نرم دل اور تحمل مزاجی کے لیے مشہور تھے۔ (ہمارے حجاج کرام بھی آج تک اہلِ مدینہ کی ان با توں کی تعریف و توصیف کرتے ہیں کیوں کہ اہلِ مدینہ کی اکثریت انہی دو قبائل کی اولاد سے ہیں)۔
یثرب کو دارالہجر ت بنانے اور دعوتِ اسلام کی تبلیغ کے لیے ایک مستحکم قلعے کی اشد ضرورت تھی۔ دوسرے اس کے اطراف میں کھجوروں کے گھنے باغات تھے۔ ان تمام عوامِل اور جغرافیائی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے یثرب کا شہر اس کا مستحق تھا کہ اس کو آنحضورؐ اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ کا دارالجرت اور دعوتِ اسلامی کا ہیڈ کوارٹر بنایا جائے۔اِدھر مکہ میں کفارِ قریش نے آپؐ کو دن رات ستانا شروع کردیا اور مصائب میں اضافہ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ سب سے پہلے ذی الحجہ2 1ن میں آنحضورؐ کے رضاعی بھائی اور آپؐ کی پھوپھی برّہ بنت عبدالمطلب کے صاحبزادے ابو سلمہؓ نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے بعد اگلے سال ذی الحجہ13 کے بعد عامر بن ربیعہؓ اپنی زوجہ لیلیٰ بنت ابی حثمہؓؓ کے ساتھ نکلے۔ پھر حضرت عمار بن یاسرؓ، حضرت بلالؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ہجرت کی۔ پھر حضرت عثمانؓ اپنی اہلیہ حضرت رقیہؓ بنت رسول اللہ کے ساتھ مدینہ روانہ ہوئے۔ پھر ہجرت کا سلسلہ چل پڑا اور لوگ پے در پے نئے دارالجرت مدینہ کی طرف جانے لگے۔ کچھ خاندانوں کو مکہ کے کفار نے ہجرت کرنے سے زبردستی روک لیا اور انہیں گرفتار کر لیا، باقی جو لوگ اپنی ہمت اور بل بوتے پر ہجرت کرسکے تھے، عازم مدینہ ہوئے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ مکہ میں صرف حضور اکرمؐ ،حضرت ابوبکرؓ اورحضرت علیؓ باقی رہ گئے۔ حضرت علیؓ کو حضور اکرمؐ نے اس لیے روک لیا تھا کہ وہ آپؐ کے پیچھے مکہ میں ٹھہر کر سب لوگوں کی امانتیں واپس کردیں، جنہوں نے اپنے قیمتی مال حفاظت کے لے آپؐ کے پاس رکھ چھوڑے تھے۔
جب کفار مکہ نے آپ ﷺ کو رات کے وقت شہید (نعوذ باللہ )کرنے کا منصوبہ بنا لیا ۔اسی روز اللہ کی طرف سے حضرت جبرائیل ؑ نے آکر آپ ﷺ کو قریش کے ارادے سے باخبر کیا اور آپؐ کو ہدایت کی کہ آج رات آپؐ اپنے بستر پر نہ سوئیں۔ ہدایت الٰہی کی روشنی میں آپؐ دوپہر کے وقت اپنے گھر سے نکلے ۔
رات بھر دشمنوں نے حضورؐ کے مکان کا محاصرہ کیے رکھا۔ صبح ہوئی تو ان لوگوں نے حضورؐ کے بستر پر سے حضرت علیؓ کو اٹھتے ہوئے دیکھا ۔اس وقت ان کو معلوم ہوا کہ آپ ؐ تو کبھی کے یہاں سے جاچکے ہیں۔ انہوں نے درشتگی سے حضرت علیؓ سے استفسار کیا کہ ’’ آپ کے صاحبؐ کہاں ہیں‘‘؟ آپؓ نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں تشریف لے گئے ہیں، میں ان پر کوئی نگران نہیں۔ تم لوگوں نے انہیں نکل جانے پر مجبور کیا اور وہ نکل گئے‘‘ اس جواب پر کفار بہت سٹپٹا ئے۔
رات کے وقت 27صفر نبوت کے چودھویں سال بمطابق 12، 13 ستمبر622ء کی درمیانی شب آپؐ اپنے مکان سے نکل کر سورہ یٰسین کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کے مکان پر تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہؓ نے جلدی جلدی دونوں مسافروں کے لیے ضروری زادِ راہ تیار کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ کو ہدایت کی کہ وہ دن اہلِ مکہ میں گزار کر رات کو ہمیں غارِثور میں دن بھر کی جمع شدہ اطلاعات سنا دیا کرے۔ اپنے غلام عامر بن فہیرہ کو حکم دیا کہ حسبِ معمول دن کے وقت بکریاں چراتا رہے اور رات کے وقت ہمارے پاس غارِ ثور میں آکر بکریوں کا دودھ دے دیا کرے۔ حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ شام کے وقت تازہ کھانا پہنچاتی رہیں۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ مکہ چھوڑتے وقت ابوطالبؓ کی بیٹی اور حضرت علیؓ کی بہن ام ہانیؓ کے گھر کے قریب ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے ہوکر حضرت رسول اللہﷺ نے آخری مرتبہ کعبہ شریف کو دیکھا اورفرمایا ’’ مکہ ! تو مجھے تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے لیکن تیرے فرزند مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے ‘‘۔(مسند ابوالموصلی)
غارِ ثور میں قیام کے دوران حضرت ابوبکرؓ کا غلام عامر بن فہیرہ طے شدہ منصوبے کے مطابق دو سفید اونٹنیاں لے کر غارِ ثور تک پہنچ گیا۔ حضرت رسولِ اکرمؐ اور حضرت ابوبکرؓ ان پر سوار ہوگئے۔ آپؐ نے احتیاطی طور پر ملک شام والا راستہ اختیار کرنے کی بجائے قدرے طویل اور ہٹ کر گزرنے والا سمندر کے کنارے والا راستہ اختیار کیا تاکہ کسی کو ہمارا تعاقب کرنے کا خیال نہ آئے۔ یہ ایک بہت اچھی تدبیر تھی جو آنحضورؐ نے اختیار کی۔ راستے کا راہنما(گائیڈ) عبداللہ بن اریقط ہمراہ تھا۔
وادی قبا میں مسجد کی تکمیل کے بعدآپؐ نے مدینہ کا عزم کیا اور اپنی قصویٰ پر سوار ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب آپؐ مدینہ میں داخل ہوئے تو سارے مسلمان اپنے گھروں سے نکل کر آپؐ کے متوقع راستے پر گلی کوچوں اور بازاروں میں جمع ہوگئے۔ تمام مسلمانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ ہر ایک کے چہرے سے خوشی چھلک رہی تھی۔ ان میں کچھ لوگ پیغمبرؐ اسلام کی اونٹنی کی طرف جاتے اوراُ س کی عنان تھام کر آپؐ سے درخواست کرتے کہ آپؐ ہمارے گھر میں قیام فرمائیں۔ بنی سالم کے سرکردہ لوگ آپؐ کے سامنے آئے اور آپؐ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر عرض کیا ’’ یا رسول اللہؐ! آپؐ ہمارے ہاں قیام فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’ میری اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو، کیونکہ یہ مامور ہے‘‘۔ آپؐ نے خود بھی قصویٰ کی نکیل ڈھیلی چھوڑ دی تھی۔ آپؐ نے فرمایا کہ’’ میں جانتا ہوں کہ میری اونٹنی وہیں بیٹھے گی جہاں پر اللہ چاہے گا اور میں بھی اسی جگہ قیام کروں گا‘‘۔
حضور اکرم ﷺکی اونٹنی قصویٰ مدینہ کے کئی محلوں سے گزرتی ہوئی بنی نجار کے محلہ میں داخل ہوگئی۔ قصویٰ کچھ دیر تک نجار کے محلہ میں چکر لگاتی رہی اور پھر ایک قطعۂ زمین میں داخل ہوگئی جو بالکل خالی تھا۔ اونٹنی چند قدم آگے بڑھی اور پھر واپس ہوئی اور پھر پہلے والی جگہ پر ٹھہر گئی اور زمین پر گھٹنے ٹیک دیئے۔ آنحضورؐ نے یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ آیا اس کا یہ ٹھہرنا عارضی ہے یا مستقل، قصویٰ کو اٹھانے کی کوشش کی، لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ آپؐ نے سمجھ لیا کہ یہی اللہ کا فیصلہ ہے اورمجھے اسی جگہ قیام کرنا ہے۔جہاں اونٹنی رکی تھی اس جگہ کو کھجوریں خشک کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا البتہ کچھ فاصلے پر ایک دو منزلہ گھر موجود تھا۔ آپؐ کے پوچھنے پر لوگوں نے بتایا کہ یہ ابو ایوبؓ انصاری کا گھر ہے۔ آپؐ قصویٰ سے نیچے اترے اور زمین پر قدم رکھا، اسی لمحہ ابو ایوبؓ جن کا پورا نام ابو ایوب خالد بن زید تھا آگے بڑھے اور پیغمبرؐ کے دستِ مبارک سے آپؐ کا سامان اتار کر اپنے گھر لے گئے اور آپؐ نے انہی کے ہاں قیام فرمایا۔ اس طرح آپؐ کی میزبانی کا شرف حضرت ابو ایوبؓ انصاری کے حصہ میں آیا۔ اہلِ مدینہ نے عقیدت و محبت کے ساتھ آپؐ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔
چند روز بعد حضرت عبداللہ بن ابو بکرؓ حضور اکرمؐ کی زوجہ محترمہ حضرت سودہؓ، حضرت عائشہؓ، آپؐ کی دونوں صاحبزادیوں حضرت فاطمہؓ، حضرت ام کلثومؓ، اسامہؓ بن زید اور ام ایمنؓ کو لے کر مدینہ منورہ پہنچ گئے۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ پہنچے تو حضرت ابو بکر ؓ ، حضرت بلالؓ اور دیگر کئی صحابہ بیمار ہوگئے۔ انہیں پہلے پہل مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی۔ آنحضورؐ نے اللہ سے دعا فرمائی ’’ اے اللہ ہمارے لیے مدینہ کو اس طرح محبوب کر دے جیسے مکہ محبوب تھا، اس سے بھی زیادہ مدینہ کی فضا صحت بخش بنا دے اور اس کے غلے میں برکت دے اور اس کا بخار منتقل کرکے حجفہ پہنچا دے‘‘ اللہ نے آپؐ کی دعا قبول فرمائی اور مدینے کی آب و ہوا نہایت صحت مند اور خوش گوار ہوگئی۔
مدینہ، مکہ سے شام اور مصر جانے والے تجارتی راستے پر ایک اہم تجارتی مرکز بھی تھا۔ قریش کے جو قافلے شام کی طرف جاتے وہ مدینہ میں قیام کرتے۔ مدینہ میں بڑی تعداد میں یہودی آباد تھے۔ مدینہ کے عرب قبائل اوس اور خزرج دو سو سال سے ان یہودیوں کے ساتھ ایک ہی شہر میں رہ رہے تھے اور وہ نبوت، وحی، کتاب اللہ اور شریعت کے مفہوم سے بخوبی آشنا تھے۔ مدینہ کے مشرکین میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمانوں کے خلاف دل میں سخت بغض اور کینہ رکھتے تھے مگر ان کو کھل کھلا کر سامنے آنے کی جرأت نہ تھی، اس گروہ کو منافقین کے نام سے پکارا گیا۔ ان منافقین کا سردار عبداللہ بن ابی تھا۔ عبداللہ بن ابی چند ہی ماہ بعد مدینے کا سردار بننے والا تھا۔ زرگروں نے اس کے سر پر تاج رکھنے کے لیے اس کے سر کا ماپ بھی لے لیا تھا۔ مگر اسلام کے پیغمبرؐ کے آنے سے اس کی امیدوں پر پانی پھر گیا اور مدینہ کی سرداری کا خواب دھرا کا دھرا رہ گیا۔ اس وجہ سے وہ لوگ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہو گئے۔ مدینہ کے یہودی دولت مند تھے ۔ غلے، کھجور، شراب اور کپڑے کی تجارت ان کے ہاتھ میں تھی۔ مسلمانوں کے یہاں آنے سے وہ بہت پریشان رہتے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں