وطن نیوز انٹر نیشنل

مکہ معظمہ میں تبلیغ اسلام اور سفر ہجرت

تحریر : فقیر اللہ خان.
حضرت رسول پاک ﷺ مکہ معظمہ میں حج کے ایام میں باہر سے آنے والوں میں اسلام کی تبلیغ کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ یثرب سے قبیلہ اوس اور خزرج کے چھ آدمی عقبہ کی پہاڑی کے پاس آپؐ کو ملے۔ آنحضور ؐ نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید کی تلاوت فرمائی۔ یہ لوگ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے پڑوس میں رہا کرتے تھے اور ان کی نبوت اور انبیاء کے بارے میں آپس میں گفتگو کرتے اور توریت کی تلاوت کرتے ہوئے برابر دیکھتے اور سنتے تھے۔ ان سے وہ یہ بھی سنا کرتے کہ زمانہ قریب میں ایک اللہ کا نبیؐ آنے والا ہے۔

اوس اورخزرج سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے آپؐ سے ملاقات کے بعد، قرآن پاک کی تلاوت اور تبلیغ سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ اپنے شہر واپس جاکر انہوں نے اسلام کی خوب تبلیغ کی۔ دوسرے سال حج کے موسم میں اوس اور خزرج قبائل کے بارہ (12) آدمی آپؐ سے عقبہ میں ملے۔ مکہ سے واپسی پر آپؐ نے ان کی درخواست پر اپنے ایک جلیل القدر صحابی حضرت مصعب بن عمیرؓ کو ان کے ساتھ روانہ کر دیا تا کہ وہ مدینہ کے لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کریں۔ ان کی کوششوں سے مدینہ میں لوگوں کو اسلام کے متعلق آگاہی ملی۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ نے گھر گھر جاکر اسلام کی دعوت دی۔ مدینہ سے آنے والے ان بارہ مسلمانوں کو تاریخِ اسلام میں انصار کے نام سے موسوم کیا گیا۔

اس سے اگلے سال ہجرت مدینہ سے ایک سال قبل حضرت مصعب بن عمیرؓ مکہ آئے تو انصارِ مدینہ کی ایک جماعت ان کے ہمراہ تھی۔ ان کی تعداد 73 تھی جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ آپؐ نے اپنے چچا حضرت عباسؓ کے ہمراہ ( جو اس وقت ابھی اسلام نہیں لائے تھے) ان لوگوں سے ملاقات کی۔آپؐ نے اُن سے بیعت لی کہ تم میری حفاظت اپنے اہل و عیال کی طرح کروگے۔ اُن لوگوں نے آپؐ سے بھی وعدہ لیا کہ آپؐ بھی ہمیں مدینہ آکر ہر طرح کا تحفظ فراہم کریں گے۔رفتہ رفتہ مدینہ میں اسلام کی تبلیغ سے لوگ متعارف ہو رہے تھے۔ آنحضرتؐ کی بعثت کو تیرہ سال مکمل ہو چکے تھے۔

یثرب کو دارالہجرت بنانے اور دعوتِ اسلام کی تبلیغ کے لیے ایک مستحکم قلعے کی اشد ضرورت تھی۔ دوسرے اس کے اطراف میں کھجوروں کے گھنے باغات تھے۔ ان تمام عوامِل اور جغرافیائی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے یثرب کا شہر اس کا مستحق تھا کہ اس کو آنحضورؐ اور آپؐ کے اصحابہ کرامؓ کا دارالہجرت اور دعوتِ اسلامی کا ہیڈ کوارٹر بنایا جائے۔اِدھر مکہ میں کفارِ قریش نے آپؐ کو دن رات ستانا شروع کردیا اور مصائب میں اضافہ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ مکہ چھوڑتے وقت ابوطالب کی بیٹی اور حضرت علیؓ کی بہن ام ہانیؓ کے گھر کے قریب ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھڑے ہوکر حضرت رسول اللہﷺ نے آخری مرتبہ کعبہ شریف کو دیکھا اورفرمایا ’’ مکہ ! تو مجھے تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے لیکن تیرے فرزند مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے ‘‘۔(مسند ابوالموصلی)

جب آپؐ مدینہ میں داخل ہوئے تو سارے مسلمان اپنے گھروں سے نکل کر آپؐ کے متوقع راستے پر گلی کوچوں اور بازاروں میں جمع ہوگئے۔ تمام مسلمانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ ہر ایک کے چہرے سے خوشی چھلک رہی تھی۔ ان میں کچھ لوگ پیغمبرؐ اسلام کی اونٹنی کی طرف جاتے اوراُ س کی عنان تھام کر آپؐ سے درخواست کرتے کہ آپؐ ہمارے گھر میں قیام فرمائیں۔ بنی سالم کے سرکردہ لوگ آپؐ کے سامنے آئے اور آپؐ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر عرض کیا ’’ یا رسول اللہؐ! آپؐ ہمارے ہاں قیام فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’ میری اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو، کیونکہ یہ مامور ہے‘‘۔ آپؐ نے خود بھی قصویٰ کی نکیل ڈھیلی چھوڑ دی تھی۔ آپؐ نے فرمایا کہ’’ میں جانتا ہوں کہ میری اونٹنی وہیں بیٹھے گی جہاں پر اللہ چاہے گا اور میں بھی اسی جگہ قیام کروں گا‘‘۔

حضور اکرم ﷺکی اونٹنی قصویٰ مدینہ کے کئی محلوں سے گزرتی ہوئی بنی نجار کے محلہ میں داخل ہوگئی۔ قصویٰ کچھ دیر تک نجار کے محلہ میں چکر لگاتی رہی اور پھر ایک قطعۂ زمین میں داخل ہوگئی جو بالکل خالی تھا۔ اونٹنی چند قدم آگے بڑھی اور پھر واپس ہوئی اور پھر پہلے والی جگہ پر ٹھہر گئی اور زمین پر گھٹنے ٹیک دیئے۔ آنحضورؐ نے یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ آیا اس کا یہ ٹھہرنا عارضی ہے یا مستقل، قصویٰ کو اٹھانے کی کوشش کی، لیکن وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ آپؐ نے سمجھ لیا کہ یہی اللہ کا فیصلہ ہے اورمجھے اسی جگہ قیام کرنا ہے۔جہاں اونٹنی رکی تھی اس جگہ کو کھجوریں خشک کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا البتہ کچھ فاصلے پر ایک دو منزلہ گھر موجود تھا۔ آپؐ کے پوچھنے پر لوگوں نے بتایا کہ یہ ابو ایوبؓ انصاری کا گھر ہے۔ آپؐ قصویٰ سے نیچے اترے اور زمین پر قدم رکھا، اسی لمحہ ابو ایوبؓ جن کا پورا نام ابو ایوب خالد بن زید تھا آگے بڑھے اور پیغمبرؐ کے دستِ مبارک سے آپؐ کا سامان اتار کر اپنے گھر لے گئے اور آپؐ نے انہی کے ہاں قیام فرمایا۔ اس طرح آپؐ کی میزبانی کا شرف حضرت ابو ایوبؓ انصاری کے حصہ میں آیا۔ اہلِ مدینہ نے عقیدت و محبت کے ساتھ آپؐ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔

مدینہ، مکہ سے شام اور مصر جانے والے تجارتی راستے پر ایک اہم تجارتی مرکز بھی تھا۔ قریش کے جو قافلے شام کی طرف جاتے وہ مدینہ میں قیام کرتے۔ مدینہ میں بڑی تعداد میں یہودی آباد تھے۔ یہاں ایک گروہ کو منافقین کے نام سے پکارا گیا۔ ان منافقین کا سردار عبداللہ بن ابی تھا۔ عبداللہ بن ابی چند ہی ماہ بعد مدینے کا سردار بننے والا تھا۔ زرگروں نے اس کے سر پر تاج رکھنے کے لیے اس کے سر کا ماپ بھی لے لیا تھا۔ مگر اسلام کے پیغمبرؐ کے آنے سے اس کی امیدوں پر پانی پھر گیا اور مدینہ کی سرداری کا خواب دھرا کا دھرا رہ گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں