وطن نیوز انٹر نیشنل

پاکستانی خلائی تحقیقی پروگرام جمود کا شکار کیوں؟

صادقہ خان

24.08.202324 اگست 2023

1962 میں پاکستانی سائنسدانوں نے محض نو ماہ کے قلیل عرصے میں رہبر ون راکٹ کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس شاندار آغاز کے باوجود تقریبا ساٹھ سال بعد پاکستان کا خلائی پروگرام محض کمیونیکشن سٹیلائٹس تک محدود ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی منظر نامہ  تبدیل  ہو چکا تھا۔ عالمی طاقتیں جان  گئی تھی کہ آنے والا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے جس میں میدان جنگ کے بجائے جنگیں ٹیکنالوجی  سے لڑی جائیں گی اور روس اور امریکا کے درمیان خلائی  دوڑ عروج پر تھی۔ ایسے میں  12 ستمبر 1962 کو  سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے  اعلان کیا کہ 60 کی دہائی کے اختتام تک امریکا اپنا پہلا خلا باز چاند پر باحفاظت اتارے گا۔

کینیڈی کے اس اچانک اعلان کے بعد ناسا کے انجینئرز اور سائنسدان شدید دباؤ میں تھے۔ دیگر وجوہات کے علاوہ  ان کے پاس  مشن  کی ٹراجیکٹری یا وہ راستہ جس سے چاند پر محفوظ لینڈنگ اور  زمین پر واپسی ممکن ہوتی، اس  کے متعلق  درست اعداد و شمار نہیں تھے۔ اس دور میں جو لوگ یہ  طویل اور کٹھن کیلکولیشن کیا کرتے تھے انہیں ”ہیومن کمپیوٹر‘‘  کہا جا تا تھا۔ اس حوالے سے افریقی نژاد  کیتھرین جانسن  نے اہم کردار ادا کیا جو اس سے پہلے خلا باز جان گلین کے  زمینی مدار کے گرد مشن کے لیے بھی  انتہائی درست اعداد و شمار فراہم کر چکی تھی۔اپولو سیریز کے مشنز میں پاکستانی سائنسدانوں  نے کس طرح معاونت کی؟

پاکستانی خلائی پروگرام اور قومی تقاضے

سارک سیٹلائٹ منصوبہ: ’پاکستان کو بھارت کی ضرورت نہیں‘

 ناسا کے سائنسدانوں کو ایک مسئلہ یہ بھی درپیش تھا  کہ انھیں بحر ہند کے اوپر  فضائی صورتحال جاننے کی ضرورت تھی۔ جسے وہ ‘بلیک ہول آف ڈیٹا ‘ کہا کرتے تھے۔ اس ریجن سے  بالائی ایٹموسفیئر میں ہواؤں کے دباؤ، ان کی رفتار، درجۂ حرارت  اور مکمل اسٹرکچر کی تفصیلی معلومات  مل سکتی تھیں۔

 ناسا کے ماہرین نے خطے کے سب ہی ممالک کو اس تجربے کی آفر کی تھی جس میں بھارت بھی شامل تھا۔ خوش قسمتی سے انہی  دنوں پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان امریکا کے دورے پر گئے جن کے ساتھ ان کے سائنس مشیر ڈاکٹر عبد السلام بھی تھے۔

ڈاکٹر  طارق مصطفی  اس دور میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں سینئر انجینئر تھے جنھوں  نے بعد ازاں رہبر ون راکٹ لانچ   پراجیکٹ کو لیڈ کیا۔ اس حوالے سے ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق مصطفی نے بتایا کہ 1961 میں  وہ امریکی اٹامک انرجی کمیشن لیبارٹری اوک رائج میں  دوسالہ فیلو شپ  پر تھے ۔ جولائی 1961 میں   ڈاکٹر  عبد السلام  نے انہیں کال کرکے ناسا کی آفر کے بارے میں بتایا۔

ناسا کے ساتھ پاکستان  کا یہ تعاون دو حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلے  پاکستانی سائنسدانوں  کو  راکٹ رینج تیار کرکے  ناسا کو درکار  ڈیٹا  فراہم کرنے کے لیے بخارات کا تجربہ کرنا تھا ۔جبکہ دوسرے حصے میں 1961 سے 1964 تک مزید راکٹ  تجربات کرنے تھے۔ ڈاکٹر طارق بتاتے ہیں کہ اس وقت ان کی ٹیم پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا حصہ تھی اور سپارکو کی باقاعدہ تشکیل نہیں ہوئی تھی۔

Pakistan Weltraumprogramm
رہبر ون لانچ کا منظرتصویر: Tariq Mustafa

کچھ ہی ماہ میں پاکستانی سائنسدانوں کی ٹیم کو آئس لینڈ راکٹ رینج کا دورہ کروایا گیا اور ضروری ساز و سامان کے علاوہ تربیت بھی فراہم کی گئی۔ اس ٹیم میں ڈاکٹر سلیم محمود، احمد ضمیر فاروق ، سکندر زمان اور محکمۂ موسمیات سے رحمت اللہ شامل تھے۔ ان سائنسدانوں نے دن رات محنت کر کے بلوچستان کے ساحلی علاقے سونمیانی میں ناصرف راکٹ رینج قائم کی بلکہ صرف نو ماہ کے قلیل عرصے میں پاکستان کے پہلے راکٹ ‘رہبر ون‘  کا کامیابی کے ساتھ تجربہ کر کے متعلقہ ڈیٹا ناسا کے ماہرین کو فراہم کیا۔

رہبر ون کی لانچ کے ساتھ کیا تجربہ کیا گیا ؟

ڈاکٹر طارق مصطفی بتاتے ہیں کہ ناسا کے ماہرین کو اپالو سیریز کے لیے بحر ہند/ بحیرۂ عرب  کے اوپر  چند  مخصوص مقامات پر بخارات کی تصاویر درکار تھیں۔ اس مقصد کے لیے سونمیانی کے اطراف میں پانچ مقامات پر کیمرے نصب کیے گئے اور   11 جون 1962 کو رہبر ون  راکٹ کے ذریعے  50 سے 100 میل کی بلندی پر   سوڈیم کے بخارات  چھوڑ کر مطلوبہ تصاویر حاصل کی گئیں۔ اس تجربے سے جو ڈیٹا حاصل ہوا اس سے   ان کی ٹیم کو بحیرۂ عرب کے اوپر  موسموں کے پیٹرن، بادلوں کا بننا اور سائیکلون  وغیرہ کے متعلق اہم معلومات بھی ملیں۔

اس کامیاب  تجربے کے ساتھ پاکستان مسلم دنیا  کا پہلا اور عالمی سطح پر  دسواں ملک بن گیا  جس نے اپنا راکٹ لانچ کیا تھا۔ بھارت نے یہ سنگ میل  15 ماہ بعد  نومبر 1963 میں عبور کیا۔ رہبر سیریز کا دوسرا راکٹ چند دن بعد 11 جون 1962 کو لانچ کیا گیا۔ڈاکٹر طارق مصطفی بتاتے ہیں کہ ہم نے پوری تندہی کے ساتھ اپنا  کام جاری رکھا اور 1969 میں سپارکو کے میر پور میں بنائے گئے راکٹ پلانٹ میں ”رہنما‘‘ اور ”شہپر‘‘ سیریز کے راکٹ کامیابی کے ساتھ تیار کیے گئے۔ 

ہمیں یاد ہے انسان کا چاند پر پہنچنا

اگلے برسوں میں کیا ہوا؟

اگلے برسوں میں سپارکو کو فنڈز کی کمی کے علاوہ انتظامی معاملات میں مسائل کا  بھی سامنا رہا۔ رہبر ون راکٹ لانچ  ٹیم کے ایک رکن سلیم محمود  جو سپارکو کے  چیر مین بھی رہ چکے ہیں بتاتے ہیں کہ فی الوقت سپارکو ساؤنڈنگ راکٹ، کمیونیکشن اور ریموٹ سینسنگ سٹیلائٹ پر توجہ مرکوز رکھے ہو ئے ہے۔ پاکستان  نے 2011 میں چین کے تعاون سے اپنا پہلا کمیونیکیشن سٹیلائٹ پاک- سیٹ ون آر لانچ کیا  جس کا مقصد براڈ بینڈ انٹرنیٹ ، ٹیلی ایجوکیشن وغیرہ کی سروسز فراہم کرنا تھا۔   2018 میں پاکستان  نے چین کے تعاون سے  مقامی طور پر تیار کردہ ریموٹ سینسنگ سٹیلائٹ  بھی لانچ کئے تھے۔

جولائی 2019 میں ایک ٹویٹ میں اس وقت کے وفاقی وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی  فواد چوہدری نے اعلان کیا کہ پاکستان خلائی مشن کے لیے خلابازوں کی بھرتی کا عمل 2020 میں شروع کرے گا اور 2022 تک  پاکستان کا پہلا انسان بردار مشن خلا میں بھیجا جائے گا۔ یہ اعلان بھارت کے چاند کی جانب بھیجے جانے والے مشن چندریان ٹو کی لانچ کے دو دن بعد سامنے آیا تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

خلائی سائنسدان کیا کہتے ہیں؟

 بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر یار جان عبدالصمد بلوچ  کیمبرج یونیورسٹی میں سینیئر خلائی سائنسدان ہیں۔ کیمبرج گریفین سینٹر میں ان کی تحقیق کا مرکز نانو اور خلائی  ٹیکنالوجی ہےاور وہ یورپیئن  اسپیس ایجنسی کے کئی خلائی مشنز  میں  معاونت کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر یار جان نے اس حوالے سے  ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا خلائی پروگرام ناسا کی اپالو سیریز  کے ساتھ شروع ہوا تھا ۔ 70 کی دہائی  میں ناسا  نے جتنے مشن بھیجے وہ چاند سے متعلق تھے مگر پھر  1980 سے  خلائی پروگرام اور تحقیق میں بتدریج کمی آتی گئی جو صرف پاکستان میں  ہی نہیں  بلکہ عالمی سطح پر  بھی تھی۔

اس کے بعد اب گذشتہ دو عشروں میں خلا کی تسخیر کی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے۔ بھارت، چین اور متحدہ عرب امارات  کے خلائی  مشنز کے علاوہ پرائیویٹ کمپنیاں جیسے سپیس ایکس اور ورجن گلیٹک بھی کافی سرگرم ہیں  ۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اس میں اپنا حصہ نہیں ڈال رہا ۔

لیکن میرا یہ ماننا  ہے کہ کسی بھی فیلڈ میں ریسرچ  سائنس کو آگے بڑھانے کے لیے کی جاتی ہے۔ صرف خلا میں مشن یا خلاباز بھیجنے کا سٹیٹس حاصل کرنا مقصد نہیں ہونا چاہیے، جیسے کہ ابھی 20 جولائی کو بلیو  ورجن  کے مالک جیف بیزوس خلا میں گئے۔  بلکہ ہم کوئی ایسی  سائنس یا ٹیکنالوجی متعارف کروائیں جو دنیا میں ابھی تک کہیں نہ ہو۔ جیسے  چند برس قبل گریوی ٹیشنل ویوز کی تجربے کے ذریعے تصدیق ہوئی جو  ایک خاص ہدف کے تحت ہوئی اور تحقیق میں مزید راہیں وا کرتی ہے۔

ڈاکٹر یار جان مزید کہتے ہیں کہ آج کل  ایک نئی جہت کراس کٹنگ ٹیکنالوجی کے نام سے دھوم مچا رہی ہے۔ ”اس میں ایسی چیزیں ایجاد کی جاتی ہیں جو چاہے دفاع سے متعلق ہوں یا خلائی تسخیر کے لیے متعارف کرائی گئی ہوں مگر  ساتھ ہی وہ زمین پر انسانوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے بھی استعمال کی جائیں۔‘‘

اگر ہم  پاکستان کے خلائی مشن کی بات کریں تو راکٹ یا  کوئی اور ٹیکنالوجی  بھلے دفاع سے متعلق ہو مگر ہم انہیں اس طرح آگے بڑھائیں کہ ان سے عام زندگی میں بھی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ   پاکستان میں تحقیقی اداروں اور یونیورسٹیوں کو  مضبوط کیا جائے اور وہاں خلائی  تحقیق کے  کلچر اور ” وژن” کو فروغ دیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں