وطن نیوز انٹر نیشنل

اردو ادب میں میری پہچان کی وجہ احمد ندیم قاسمی ہیں!!! گل بخشالوی

فنون کا دیدہ زیب سالنامہ وصول ہوا، دنیائے اردو ادب کے قابلِ تحسین علم برداروں کی قلمی محفل میں مجھے بھی جگہ ملی ہے اس کے لئے بھی شکریہ ،، فنون سے بہت پرانہ قلبی رشتہ ہے احمد ندیم قاسمی صاحب کو اسلئے مرحوم نہیں لکھوں گا کہ وہ آج بھی میری دھڑکنوں میں دھڑک رہے ہیں دنیائے اردو ادب میں آپ میری پہچان ہیں اور میں اپنی اس پہچان پر فخر کرتا ہوں اس لئے کہ میری پہچان بحثیت شاعر اور ادیب کے نہیں بلکہ اردو ادب سے میری محبت ہے اور یہ اعزاز احمد ندیم قاسمی کی مرہونِ منت ہے!
1982 کی بات ہے لالہ موسیٰ کے ممتاز مرحوم شاعر کاوش بٹ کے سالانہ مشاعرے کی صدارت احمد ندیم قاسمی فرما رہے تھے میں پہلی بار مشاعرہ پڑھنے گیا لیکن ناظمِ مشاعرہ نے کہا میں آپ کو نہیں جانتا میں نے نہ آپ کو پڑھا ہے اور نہ سنا ہے اتنے بڑھے مشاعرے میں آپ کو مشاعرہ پڑھنے کی ا جازت نہیں دے سکتا ،بات بھی درست تھی ۔ اسی شام لالہ موسیٰ کے قطعہ گو شاعر اسحاق آشفتہ سے ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگے دورِ حاضر میں تخلیق کار کو اس کی تخلیق سے نہیں اس کے نام سے پہچانا جاتا ہے اگر اردو ادب میں جینا چاہتے ہو تو نام پیدا کرو ،کوئی انتخاب شائع کرو مرحوم کا مشورہ میرے دل کو لگا اور میں نے قومی اخبارات کے ادبی ایڈیشن کا سہارا لے کر غزل انتخاب کی اشاعت کا پیغام مشتہر کر دیا اور دو سال کی طویل مدت میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں مقیم شعراءوشاعرات سے رابطے میں رابطہ ایڈریس اور تصویر کے ساتھ366غزلوں پر مشتمل انتخاب سوچ رت 1984میں شائع کرنے میں کامیاب ہو گیا !اردو غزل کے اس پہلے انتخاب میں مظہر امام۔ محسن احسان، رئیس امروہوی، شیر افضل جعفری، محمد فیروز شاہ، حزین لدھیانوی جیسےشہرہءآفاق شعراءکے ساتھ محترم احمد ندیم قاسمی نے میرے لئے لفظوں کی سوغات میں لکھا.حاجی گل نے غزلوں کا گلدستہ مرتب کر کے اردو ادب کی اس غیر فانی اور بے انتہا رسیلی صنفِ شع کے حضور نذرانہءعقیدت پیش کیا یہ نذرانہ صرف حاجی گل کی طرف سے نہیں بلکہ سوچ رت میں شامل ہر غزل گر کی طرف سے ہے.
احمد ندیم قاسمی صاحب نے لفظوں کی سوغات کے ساتھ قلم قافلہ کی ممبر شپ کے لئے 100 روپے کا چیک بھی ارسال کر دیا( فوٹو کاپی لف ہے) جو میں نے کیش نہیں کیا بلکہ آج تک سینے سے لگائے ہوئے ہوں ،سوچ رت کو دنیائے اردو ادب میں بڑی پزیرائی ملی اور میں حاجی گل سے گل بخشالوی کے نام سے اردو ادب میں اپنی خدمات کی پہچان بن گیا ،اپنی اس پہچان میں بڑا لطف آیا اور میں نے انتخاب کی باقاعدہ اشاعت کو اپنا نام دے دیا ۔
دوسرا تاریخی انتخاب1988میں 196 شعراءوشاعرات کے کلام پر مشتمل ،، خود نوشت شائع کیا اس انتخاب میں سخنورانِ جہاں نے اپنے دست مبارک سے بقلمِ خو د، تاریخ سنِ پیدائش رابطہ ایڈریس آٹو گراف کے ساتھ اپنا کلام لکھا ۔ پریشان خٹک ، حکیم محمد سعید ، سید ضمیر جعفری، رئیس امروہوی، احمد ندیم قاسمی، ( قلمی تحریر کا عکس لف ہے) پروفیسر کرم حیدری، ڈاکٹر وزیر آغا، رفعت سلطان، ڈاکٹر انور سدید، سلطان سکون، شاہنواز سواتی، ڈاکٹر منور ہاشمی،پروین کمار اشک جیسے بلند پایہ سخنوران جہاں اس انتخاب میں شامل ہیں !!
قلم قافلہ کے زیر اہتمام ابھی تک 30 تصنیفات و تالیفات شائع ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے لیکن کوئی کتاب کسی کو فروخت نہیں کی بلکہ اعزازی تقسیم کی جاتی ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر احمد ندیم قاسمی صاحب کے مشاعرے میں مجھے مشاعرہ پڑھنے دیا جاتا تو میں اردو ادب کی نظر میں جو آج ہوں کھبی نہ ہوتا آج اگر ۔ گل بخشالوی کی ادبی خدمات پر ایم فل کی ڈگری جاری ہوئی ہے تو یہ اعزاز میرے لئے احمد ندیم قاسمی صاحب کی محبت کا اعزاز ہے جو کہ میرے لئے باعثِ عزت وافتخار ہے!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں