وطن نیوز انٹر نیشنل

ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فضائی آپریشن کئے جانے کا امکان …. کیا کے ٹو سرکرنے والے بچ پائیں گے

وطن ٹی وی اپ کو بتاے گا کہ کے ٹو سر کرنے کی کوشش سے محمد علی سدپارہ کیسے لاپتہ ہوا ، اس کے بچنے کے کوی چانس ہے کہ نیہں

پاکستان سے تعلق رکھنے والےعالمی شہرت یافتہ کوہ پیما محمد علی سدپارہ اوران کے دوغیرملکی ساتھی تاحال لاپتہ ہیں۔ اس متعلق موسم ٹھیک رہا توآج ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فضائی آپریشن کئے جانے کا امکان ہے۔ سرچ ٹیم موسم ٹھیک ہوتے ہی سی ون تھرٹی کی مدد سے کے- ٹو کی بلند ترین سطح پرلاپتہ کوہ پیماوں کو تلاش کرے گی۔ جہازمیں نصب جدید ترین کیمرے سے پورے ڈیتھ زون کی عکس بندی کی جائے گی۔ سرچ آپریشن میں علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ بھی حصہ لیں گے۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کوہ پیماوٴں کی تلاش کیلئے پاک فوج اورحکومت ہرممکن کوشش کر رہی ہے، میری آئس لینڈ کے وزیرخارجہ سے اس حوالے سے بات ہوئی انہیں بھی ہم حالات سے باخبررکھے ہوئے ہیں، بدقسمتی سے جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ہم ناامیدی کی طرف جا رہے ہیں۔

واضح رہے کہ موسم سرما میں دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑK2 سرکرنے کی مہم جوئی کے دوران علی سد پارہ اور دو غیر ملکی کوہ پیما جان اسنوری اور جوان پابلو 5 فروری سے لاپتا ہیں۔

کوہ پیما محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ کا کہنا تھا کہ اس سے قبل جمعے کی رات ان سمیت چار کوہ پیماؤں نے جب کے ٹو کو سر کرنے کا سفر شروع کیا تو 8200 میٹرز کی بلندی پر پہنچنے پر ان کی آکسیجن متاثر ہو رہی تھی۔ دوسری جانب ان کی ذہنی کیفیت بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ اس لیے ان کے والد نے انہیں نیچے جانے کا مشورہ دیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نیچے جا کر انہوں نے دیگر ساتھیوں کا انتظار کیا تاکہ سمٹ کرنے کے بعد ان کے لیے پانی وغیرہ کا اہتمام کر سکیں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

ان کا کہنا ہے کہ جمعے کی دوپہر ان کے والد اور دوسرے کوہ پیماؤں نے باٹل نیک سے اپنی مہم آگے کی جانب شروع کی اور شام چھ بجے کے قریب ان کا سیٹیلائٹ سیٹ کچھ سیکنڈز کے لیے آن بھی ہوا جس کے فوری بعد سگنلز غائب ہو گئے۔

اُن کے بقول شدید سردی کی وجہ سے فون کی بیٹریاں بہت جلد ختم ہو جاتی ہیں۔ بیس کیمپ کا ٹیم کے ساتھ اس لیے بھی رابطہ ممکن نہیں تھا کیوں کہ واکی ٹاکی سیٹ اُن کے پاس تھا۔

ہفتے اور اتوار کو آرمی کے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے سات ہزار میٹر کی بلندی تک لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس سرچ آپریشن میں سیون سمٹ ٹریکس کمپنی کے منیجر داوا شرپا، مقامی چوٹیاں سر کرنے والے کوہ پیما اور دیگر ماہرین شامل ہیں۔ تاہم تلاش کے باوجود لاپتا کوہ پیماؤں کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

ساجد سد پارہ کا کہنا تھا کہ اگر کے ٹو کی تاریخ دیکھی جائے تو 90 فی صد سے زائد کوہ پیماؤں کے ساتھ حادثات تب ہوتے ہیں جب وہ نیچے کی جانب سفر شروع کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے والد اور دوسرے کوہ پیماؤں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو گا۔

ساجد کے مطابق ان کی صحت اب بہتر ہو رہی ہے۔ اس وقت وہ اپنے ایک رشتہ دار کے گھر قیام پذیر ہیں اور شام تک اپنے گھر کی جانب سفر کی کوشش کریں گے لیکن انہیں اپنے والد اور دوسرے کوہ پیماؤں کی فکر لاحق ہے۔

یاد رہے کہ دسمبر کے وسط میں تقریبا 18 ممالک سے 60 کوہ پیماؤں نے موسمِ سرما میں دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کو سر کرنے کے لیے ڈیرے ڈالے۔

16 جنوری کو دس نیپالی کوہ پیماؤں نے نرمل پُرجا کی قیادت میں تاریخ رقم کی اور پہلی مرتبہ موسمِ سرما میں کے ٹو کو سر کیا جس کے بعد علی سد پارہ اپنے بیٹے ساجد علی سد پارہ کے ہمراہ ایک اور تاریخ رقم کرنے کے لیے آگے بڑھے لیکن موسم کی خرابی کے باعث انہیں بیس کیمپ میں اترنا پڑا۔

کے ٹو کا شمار دنیا کے سب سے خطرناک ترین پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ اب تک اسے سر کرنے کی کوشش میں 88 کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسی کوشش میں بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ کوہ پیما بھی گر کر ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کی ہلاکت بیس کیمپ کی جانب رسیاں تبدیل کرتے ہوئے ہوئی۔

دیکھتے رہیے وطن ٹی وئی اور سبسکریئب کریں ہمارے اس چینل کو

اپنا تبصرہ بھیجیں