وطن نیوز انٹر نیشنل

برق گرتی ہے تو بے چارے پلس والوں پر ،

برق گرتی ہے تو بے چارے پلس والوں پر ،
گل بخشالوی
قصور وار تو نظام ِ عدالت اور کالا کوٹ ہے ، پولیس تو آئے روز معاشرتی بدکرداروں کو گرفتار کرکے عدالت میں اس کے کرتوتوں کی تفصیل کے ساتھ جج کے کے حضور پیش کرتی ہے یہ ہی پولیس کی قومی ذمہ داری ہے جسے وہ احسن طریقے سے سر انجام دے رہی ہے لیکن عدالت میں کیا ہوتا ہے ۔ جج صاحب ِ آنکھوں پر پٹی باندھ کر انصاف دینے والی کرسی پرجلوہ افروز ہوتے ہیں۔ معاشرے کے بد کردار مجرم کا سرکاری و کیل اور جج حقائق بخوبی جانتے ہیں لیکن ان کے لئے مجرم کے وکیل کا بیاں ہی قرآن و حدیث ہے ، مجرم پہلے ضمانت رہا ہو جاتا ہے اور کچھ عرصہ بعد اپنے گھنا ونا کھیل کھیلنے کے لئے بری ہو جاتا ہے تو اس میں پولیس کا کیا قصور ہے ؟
وہ بھی تو پولیس کا جوان ہے جس نے ریلوے سٹیشن پر ڈیوٹی کے دوران اس مسافر کی جان بچائی جو پلیٹ فارم سے پھسل کر ٹرین کے نیچے آ نے والاتھا ۔ ہم نے بلوچستان میں بھی پولیس کے اس سارجنٹ کو وڈیو میں دیکھا ہے جسے ڈیوٹی کے دوران ایک بلوچی سردار نے چوک میں سر عام اپنی گاڑی کے نیچے کچل ڈالا دنیا نے وہ منظر کو دیکھا لیکن عدالت نے نہیں دیکھا اور قاتل بری ہو گیا !
عدا لت میں مینار ِ پاکستان کا کیس زیر سماعت ہے سکرین اور پرنٹ میڈیا میں ٹک ٹاک گرل پر تشدد کے چرچے ہیں لیکن قوم جانتی ہے کہ کیس کا انجام نہ تو عبرت ناک ہو گا اور نہ خوفناک ، اسی لئے ایک اور وڈیو لاہور ہی کی سامنے آئی جس میں ایک نوجوان رکشہ میں سوار خواتین کو ہراساں کرتے ہوئے رکشے پر چھلانگ لگا کر ایک خاتون کا بوسہ لیا اور بھاگ گیا! وزیرِاعلی آفس سے جاری بیان میں وزیرِا علیٰ پنجاب نے ’ پولیس کے ردِعمل میں تاخیر اور فرائض سے غفلت برتنے پر برہمی کے اظہار میں‘ ڈی آئی جی سمیت کئی پولیس افسران کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ کیوں ؟
وزیر اعلیٰ بھی تو اسی لاہور میں ہیں اگر ڈی آئی جی غافل تھا تو وزیر ِ اعلیٰ کہاں تھا اس نے استعفیٰ کیوں نہیں دیا ۔آ خر ایسے ٹوپی ڈراموں کی کیا ضرورت ہے قوم کو کیوںگمراہ کیا جارہا ہے ، یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر لاہور کے مشٹنڈوں نے اسی خاتو ن کی توہین کیوں کی؟ وہاں اور بھی تو لاہور کی بیٹیا ں 14 اگست منانے آئی تھیں انہیں لاہور کے مشٹنڈوں نے کیوں نہیں چھیڑا ؟
سکرین میڈیا والے تو صبح اٹھتے ہی دعا مانگتے ہیں کہ ا یسی کوئی خبر ملے جس سے قوم کی بیٹیوں کی حیا کی چادر تار تار ہوسکے اسلامی جمہوری پاکستان کی تو ہین ہو سکے اور ہم دنیا بھر میں اس کے چرچے کر کے اپنے دیس کے دامن کو داغدار کر سکیں!
جانے ایسا کرتے ہوئے سکرین میڈیا والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی کسی خاتون کے بھائی بہن، بیٹا بیٹی ہیں کیا ان کے گھر میں ٹیلی ویژن نہیں ہوتا ، ان کی بہن بیٹیا ں کیا سوچ رہی ہوں گی ۔ لیکن کیا کریں وہ بھی وہ توملازم ہیں مردہ ضمیر تو وہ ہیں جنہوں سکرین میڈیا میںمغربی فحاشی کا مینا بازار لگا رکھا ہے جو خود عیاش اور بے حیا ہیں ہوں ان کو کسی کی حیا کی کیا پروا ہوتی ہے!

اپنا تبصرہ بھیجیں