وطن نیوز انٹر نیشنل

نئی افغان عبوری حکومت کیساتھ بات چیت کیلئے تیار ہیں: چین

ایک روز قبل افغان طالبان کی طرف سے عبوری حکومت کا اعلان کیا گیا جس کے بعد چین نے رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ نئی افغان عبوری حکومت کیساتھ بات چیت کیلئے تیار ہیں۔

ان خیالات کا اظہار چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبنگ نے بیجنگ میں بریفنگ کے دوران کیا۔

بریفنگ کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا چین نئی افغان حکومت کو تسلیم کرے گا یا نہیں۔ جس پر جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نئی افغان حکومت کیساتھ بات چیت کیلئے تیار ہیں، چین افغانستان کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ افغانستان کے نئے حکام تمام حلقوں اور نسلوں کے لوگوں کی سنیں گے تاکہ اپنے لوگوں کی خواہشات اور بین الاقوامی برادری کی توقعات کو پورا کر سکیں۔

چین کا افغانستان کیلئے 3 کروڑ ڈالر امداد کا اعلان

دوسری طرف چین کے وزیر خارجہ وینگ یائی نے افغانستان کے لیے 3کروڑ ڈالر سے زائد کی امداد کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں ترقی کے لیے چین امداد کرے گا۔

رائٹرز کے مطابق چین کے وزیر خارجہ نے اس بات کا اظہار افغانستان میں سفارتکاروں سے ویڈیو کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی اور ملک کے مقابلے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان کی معاشی اور انسانی بنیادوں پر امداد کریں۔ ہم افغانستان کی خودمختاری اور آزادی کا احترام کرت ہوئے ملکی ترقی کے لیے ان کی مدد کریں گے۔

وینگ یائی نے کہا کہ وہ افغانستان کو دالوں، سردیوں کی اجناس، ویکسین اور ادویہ کی مد میں 3کروڑ ڈالر سے زائد(20 کروڑ یوآن) کی امداد کریں گے جبکہ وہ افغان عوام کو 30 لاکھ کووڈ-19 ویکسین کی خوراکیں عطیہ کرنے کا بھی فیصلہ کرچکے ہیں۔

انہوں نے افغانستان کی نئی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام انتہا پسند اور دہشت گرد قوتوں تعلقات ختم کر کے ان کے خلاف کارروائی کے لیے اقدامات کریں۔

سابق صدر اشرف غنی نے افغان قوم سے معافی مانگ لی

سابق افغان صدر اشرف غنی نے کابل سے بھاگنے کی وضاحت جاری کرتے ہوئے افغان قوم سے معافی مانگ لی

ٹویٹر پر سابق صدر اشرف غنی نے بیان میں لکھا کہ لکھا کہ کابل چھوڑنا ان کی زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ تھا۔ 15 اگست کو طالبان غیر متوقع طور پر کابل میں داخل ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ صدارتی محل کے سکیورٹی سٹاف کے کہنے پر میں نے کابل چھوڑنے کا فیصلہ کیا، کابل نہ چھوڑتا تو 90ء کی دہائی کی طرح گلی گلی لڑائی چھڑ جاتی۔ کابل اور وہاں کے 60 لاکھ باسیوں کو بچانے کے لیے یہ فیصلہ ناگزیر تھا، اپنے ساتھ افغان عوام کا پیسہ ساتھ لانے کا الزام بے بنیاد ہے۔

پاکستان، ایران، چین اور روس طالبان سے معاہدے کیلئے کام کر رہے ہیں: امریکی صدر

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ پاکستان، ایران، چین اور روس بعض معاملات پر افغان طالبان سے بات اور معاہدے کیلئے کام کر رہے ہیں۔

رائٹرز کے مطابق امریکا کے صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے یہ چین، پاکستان، ایران اور روس، افغانستان میں طالبان کی پیشرفت کے معاملے پر یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اب انہیں کیا کرنا چاہیے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں لگتا ہے کہ چین طالبان کی فنڈنگ کرے گا حالانکہ یہ گروپ امریکی پابندیوں کا شکار ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ چین کو طالبان سے حقیقی مسئلہ ہے لہٰذا وہ طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے کی کوشش کریں گے، مجھے یقین ہے، ایسے ہی پاکستان، روس اور ایران بھی کریں گے، یہ سب سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اب وہ کیا کریں۔

طالبان حکومت تسلیم کرنے میں جلد بازی نہیں کرینگے: ترکی

دوسری طرف ترک وزیر خارجہ میولوت چاواشولو نے کہا ہے کہ طالبان حکومت تسلیم کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے اور دنیا کو بھی اس حوالے سے جلدی نہیں ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے متوازن حکمتِ عملی کی ضرورت ہے اور مختلف عوامل کی بنا پر یہ فیصلہ لیں گے۔

ترک ٹی وی چینل این ٹی وی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ترکی طالبان کے ساتھ بتدریج تعلقات بڑھائے گا۔ ہمیں اُمید ہے کہ افغانستان میں نوبت خانہ جنگی تک نہیں پہنچے گی۔ اس وقت وہاں معاشی بحران اور قحط کی سی صورتحال ہے اور ہم قطر اور امریکہ سے کابل ایئرپورٹ کے متعلق بات چیت کر رہے ہیں۔ افغانستان کی حکومت کو تمام گروہوں کی نمائندہ حکومت ہونا چاہیے اور اگر اس میں صرف طالبان ہوئے تو پھر اُن کے مطابق مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ طالبان کے لیے خانہ جنگی سے بہتر یہ ہوگا کہ وہ تمام دھڑوں کی نمائندہ حکومت بنائیں کیونکہ اسے پوری دنیا قبول کرے گی۔ افغان خواتین کو بھی حکومت میں ذمہ داری دی جانی چاہیے۔

ایران کی جانب سے افغانستان میں ہونیوالی پیش رفت پر تشویش

ایران میں اعلیٰ سکیورٹی حکام نے کہا ہے کہ ایران میں طالبان کی جانب سے جامع حکومت کی تشکیل میں ناکامی اور بیرونی مداخلت تشویش کا باعث ہیں۔

ایران میں سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی شامخانی نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ افغان حکام کو امن اور استحکام کو ہر چیز سے بالا رکھنا چاہیے۔

انھوں نے لکھا کہ افغان عوام کے دوستوں کے بنیادی تحفظات یہ ہیں کہ وہاں جامع حکومت کی ضرورت کو نظر انداز کیا تپا، بیرونی مداخلت اور بہت سے سماجی اور نسلی گروہوں کی جنب سے مذاکرات کے ذریعے مطالبات کو پورا کرنے کے بجائے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔

ان کی جانب سے یہ بیان طالبان کی نئی عبوری حکومت کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔ شامخانی بظاہر طالبان کے پنجشیر میں قبضے پر بھی تنقید کرتے دکھائی دیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں