وطن نیوز انٹر نیشنل

یورپی یونین بھارت سے اپنے مذاکرات میں انسانی حقوق کے تحفظ کو ترجیح دے، برسلز میں سیمینار کے مقررین کا مطالبہ

رپی ہیڈکواٹرز برسلز میں ایک آن لائن سیمینار کے مقررین نے یورپی یونین مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی و اسٹراٹجیک مذاکرات میں انسانی حقوق کے معاملات خاص طور پر جموں و کشمیر کے مظلوم لوگوں کے حقوق کے تحفظ کو اولویت دے۔

“بھارتی جمہوریت: اظہار رائے کی آزادی، پریس کی آزادی اور انسانی حقوق کے مدافعین پر قدغن” کے عنوان سے اس ویب سیمینار کا اہتمام کشمیرکونسل ای یو نے گذشتہ روز کیا۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین کشمیرکونسل ای یو علی رضا سید نے کہاکہ یورپی یونین کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی گھمبیرصورتحال اور بھارت کے مختلف علاقوں میں اقلیتوں اور نچلے درجے کی اقوام کے حقوق کے مسئلے پر توجہ دینی چاہیے جو سیکورٹی فورسسز یا حکومت کے حمایت یافتہ انتہاپسندوں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہورہے ہیں۔

علی رضا سید جن کی گفتگو کا موضوع “یورپ و بھارت تعلقات اور انسانی حقوق کے مختلف ابعاد” تھا، نے کہاکہ یورپی یونین کے حکام پہلے ہی فیصلہ کرچکے ہیں کہ وہ جمہوری اقدار، آزادی، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے احترام پر مبنی اصولوں کی بنیاد پر بھارت کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنائیں گے جس سے دونوں اطراف فائدہ اٹھاسکیں۔

چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے کہاکہ یورپی حکام کو ہرگز انسانی حقوق کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلسل انسانی حقوق کو پامال کررہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پچھلے سال پانچ اگست کے بعد جس طرح بھارت نے لوگوں کو پابند سلاسل بنایا، ان کے شہری حقوق غصب کئے اور ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا، اقوام متحدہ کے عہدیداران بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی اس خراب صورتحال کی تصدیق کرچکے ہیں۔
علی رضا سید نے سیمینار کے شرکاء کی توجہ بھارت کی طرف سے اس منصوبے کی طرف دلائی جس کے تحت بھارت جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کررہاہے۔ انہوں نے کہاکہ اس سال مئی سے ابتک پچیس ہزار غیرریاستی باشندوں کو جموں و کشمیر کا ڈومیسائل مہیا کیا گیا جس سے خطے کی آبادی کا تناسب تبدیل ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ اس سال تک اس ڈومیسائل پر حق صرف کشمیریوں کو تھا۔
سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کینیڈا سے تنظیم “سلک” کی بانی خولہ صدیقی نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں پچھلے سال اڑتیس ہزار اضافی فوجی تعینات کئے گئے تاکہ ملٹری لاک ڈاؤن کو نافذ کیا جاسکے۔ حالانکہ آٹھ لاکھ بھارتی فوجی پہلے ہی مقبوضہ خطے میں تعینات تھے۔ مقبوضہ کشمیر دنیا کی سب بڑی فوجی چھاؤنی ہے جہاں گذشتہ ایک سال سے لوگ بنیادی سہولیات اور شہری حقوق سے محروم ہیں۔ اراکین اسمبلی سمیت ایک سو کے قریب اہم سیاسی و سماجی شخصیات نظربند ہیں۔ ان کے علاوہ بڑی تعداد میں وکلاء، صحافی اور ہزاروں کی تعداد میں کارکن بھارت کی مختلف جیلوں میں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی اقتصاد بری طرح متاثر ہوئی ہے، ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں، سکول اور یونیورسٹیاں بند ہیں، میڈیا کے لوگوں پر قدغن ہے اور اب تو کرونا کے بہانہ علاج و معالجے کی سہولیات بھی محدود کردی گئی ہیں۔

آزاد کشمیر کی سابق وزیر برائے سماجی بہبود و خواتین کی ترقی فرزانہ یعقوب نے “تنازعہ اورخواتین کے اختیارات” کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ستر سال سے زائد مدت گزری چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے اور خاص طور پر مقبوضہ وادی میں خواتین کی زندگی تو بہت ہی گھمبیر ہے جہاں بے شمار خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور بہت سی خواتین اپنے بیٹوں، بھائیوں اور شوہروں سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں جو گھر سے گئے لیکن واپس نہیں آئے۔ اب بھی مقبوضہ کشمیر کی خواتین اسی خوف میں زندگی بسر کررہی ہیں۔

ہالینڈ سے کانتکننگ میگزین کے ایڈیٹر اووت کلئی نے اپنے گفتگو میں کہاکہ مقبوضہ کشمیرمیں میڈیا کی آزادی کو خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے ایک بین الاقوامی میڈیا انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ بھارتی حکومت کو صحافیوں کو ہراساں کرنے اور میڈیا پر پابندیوں کا سلسلہ ختم کردینا چاہیے۔

انہوں نے بھارت کے ایک پریس کلب کے ایک بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں کہاگیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پولیس صحافتی تحریر کے ہرلفظ کو چیک کرتی ہے اور صحافیوں کو تھانے طلب کیا جاتا ہے۔ ان کے خلاف ان کی صحافتی رپورٹوں کی وجہ سے ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ غیرقانونی خوف و ہراس پیدا کرنے کے علاوہ، صحافتی رپورٹوں اور سوشل میڈیا کے پوسٹوں کو مانیٹر کیاجاتا ہے اور صحافیوں کو جسمانی تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

برطانیہ کی شیفلڈ یونیورسٹی کی سیاست و بین الاقوامی تعلقات کے طلبہ مس عفی بخاری نے بڑھتی ہوئی قوم پرستی اور کشمیرکی آزادی کے بارے میں کہاکہ مجموعی طور پر ہندؤو نیشنلزم اس سماجی و سیاسی رویے کی عکاسی کرتا ہے جس کی بنیاد مقامی مذہبی و ثقافتی اقدار ہیں اور یہی وہ مقامی افکار تھے جس نے علاقائی شناخت کو فروغ دیا اور ہندوستان میں برطانیہ راج کو سوالیہ نشان قرار دیا، خاص طور پر برطانوی تسلط سے آزادی کی تحریک میں ان عوامل نے اہم کردار ادا کیا لیکن مودی نے برسراقتدار آنے کے بعد ہندؤو انتہاپسندی کو ہوا دی ہے اور اسی بنا پر اس نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے وہاں پابندیاں عائد کی ہیں۔

سیمینار کے مقررین نے حالیہ دنوں مقبوضہ کشمیر نوجوانوں کی ماورائے عدالت شہادتوں کے واقعات کی مذمت کی اور کہاکہ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو ان سنگین جرائم سے روکے اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے کردار ادا کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں