وطن نیوز انٹر نیشنل

تحریک پاکستان کے اہم پہلو

تحریک پاکستان کے کئی عوامل تھے، اس کا پس منظر نہایت وسیع ہے ، آج ہم اس تحریک کے اہم پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں،
جنگ بلقان کے دوران 1913میں کانپورمیں مچھلی بازار کی مسجد کا بیرونی حصہ شہید کر دیا گیا،اس سے مذہبی جذبات بُری طرح مجروح ہوئے ،اور مسلمانوں میں یہ احساس تقویت پکڑ گیا کہ برطانوی حکومت نے اندرون ہنداوربیرون ہند مسلمانوں کو پامال کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے ،چنانچہ سانحہ کانپور سے اسلامیان ہند کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ یہ سانحہ دراصل مسلمانان ہند کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا۔

نہرورپورٹ میں کانگریس نے مسلمانوں کے حقوق کوپامال کردیا تھا’’آج ہندوانڈیا اورمسلم انڈیا ایک دوسرے سے اس طرح جد اہوگئے ہیں کہ اب وہ کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے‘‘:قائد اعظمؒ
اس واقعے سے پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف ہلچل مچ گئی۔مولانا ظفر علی خان،مولانا محمد علی جوہر،مولانا ابوالکلام آزاد ،جنہوں نے بالترتیب لاہور سے ’’زمیندار‘‘،دہلی سے ’’کا مریڈ‘‘ اورکلکتہ سے ’’الہلا ل‘‘ نامی اخبارات جاری کئے ۔ دیگر مسلم زعماء مثلا ًمولانا عبدالباری فرنگی ،محلی،مولانا آزاد سبحانی ، مولانا شوکت علی وغیرہ نے انگریزوں کی مسلم دشمن پالیسی پر نکتہ چینی کی ،اورمسلمانوں پر فائرنگ اورمسلم رہنماؤں کی گرفتاریوں پر شدید احتجاج کیا جس سے مسلمانوں میں ملی بیداری اورعملی سیاست میںحصہ لینے کے جذبے کو مزید تقویت پہنچی۔
برصغیر کی تاریخ کا ایک خونچکاں عشرہ
1922سے شروع ہونے ولاعشرہ برصغیر کی تاریخ میں نہ صرف ایک خونچکاں عشرہ ہے بلکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل بھی ہے کیونکہ اسی عشرہ میں ہندو مسلم فسادات کی تاریخ میں ایک نئے اور سنگین باب کا اضافہ ہوا اورہندو مسلم مصالحت کے لیے ماضی میں کی جانے والی تمام کوششوں پر پانی پھرگیا ۔اس عشرہ میں ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی جس کو عبور کرنامحمد علی جناح ؒجیسے ہندو مسلم اتحادکے سفیر کے لیئے بھی ناممکن ہوگیا ۔اسی عشرہ میں کئی اتحاد کانفرنسیں بھی طلب کی گئی اورہندو مسلم مفاہمت کے لیے کئی تجاویزسامنے آئیں جن میں دہلی تجاویز اہم ترین تھیں اورجوقائداعظم ؒکے ایما پر 1937میں مسلم زعماء کے ایک اجلاس نے دہلی میں مرتب کی تھیں۔ آل انڈیا نیشنل کانگریس نے گاندھی جی اور نہرو کی سرکردگی میں ان مطالبات پر غورکیا اور اپنے ابتدائی اجلاس میں ان مطالبات کو تسلیم بھی کرلیا لیکن بعد میں چند متعصب ہندو عناصر کے زیر اثرمسلمانوں کے کچھ مطالبات کورد کردیاگیا۔
نہرورپورٹ میں بھی مسلمان نظر انداز
نہرورپورٹ میں بھی جو کانگریس نے ہندو ستان کے آئین کی حیثیت سے تیار کی تھی ،مسلم حقوق کوپامال کردیا گیا۔نہ صرف یہ بلکہ دسمبر1928اورجنوری1929میں جب نہرورپورٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے کلکتہ میں نیشنل کنونشن منعقد ہوا تواس میں بھی محمد علی جناحؒ کے تین بنیادی مطالبات کو مستردکردیا گیا۔ہندومسلم اتحاد کے داعی محمد علی جناحؒ کے لئے یہ ایک انتہائی مایوس کن اور چونکا دینے والی صورت حال تھی چنانچہ جب وہ کلکتہ سے بمبئی (ممبئی )روانہ ہورہے تھے تو انہوں نے اپنے ایک پارسی دوست جمشید نسروانجی سے کہاتھا ’’آج ہندوانڈیا اورمسلم انڈیا ایک دوسرے سے اس طرح جد اہوگئے ہیں کہ اب وہ کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے ‘‘۔اس رپورٹ کا ایک مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ کئی گروہوں میں بٹے ہوئے مسلمان کانگریس کی مسلم دشمنی کی بنا پر باہم متحد ہوگئے ۔جنوری 1929 میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس اسی اتحاد کی مظہر ہے اس کانفرنس کا اجلاس دہلی میں ہوا جس کی صدارت سرسلطان محمد آغا خان نے کی اس کانفرنس میں نہ صرف میاں محمد شفیع اورسرشفاعت احمد خان پیش پیش تھے بلکہ ترک موالات اورتحریک خلافت کے رہنما مولانا محمد علی جوہر ،مولانا شوکت علی اورمولاحسرت موہانی نے بھی اس میں اہم کردار اداکیا۔
حضرت قائد اعظم ؒکے چودہ نکات
ان واقعات کی روشنی میں محمد علی جناحؒ نے مارچ 1929ء میںاپنے وہ مشہور چودہ نکات پیش کئے جنہیں برصغیر کی تاریخ میں اگلے گیارہ سال تک اسلامیا ن ہند کے منشور کی حیثیت حاصل رہی۔ساتھ ہی ساتھ محمد علی جناحؒ نے مختلف مسلم جماعتوں میں اتحاد کے لیے بھی کوشش کی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ 1924ہی سے جب وہ تحریک خلافت کے بعد مسلم لیگ کی تنظیم نو کی جانب متوجہ ہوئے تھے وہ برابر مسلم اتحاد کے لیے کوشاں رہے۔1930سے 1932کے درمیانی عرصے میں لندن مین تین گول میز کانفرنسیں منعقد ہوئیں اورایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی اس کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء مرتب کیا گیا ۔
کانگریسی وزارتوں کی مسلمان دشمنی
تصورپاکستان کی فوری مقبولیت کے جہاں چند مثبت پہلو تھے وہیں اس ے چند منفی پہلو بھی تھے جیسا کہ اس سے قبل واضح ہوچکاہے کہ 1906ء سے 1937-38ء تک ہندومسلم مفاہمت کے لیئے جتنی تجاویز پیش کی گئی وہ سب میثاق لکھنو کے سوا مسلمانوں کی ہی جانب سے تھیں۔ دوسری طرف ہندوئوں نے ان تجاویز اور مسلم مطالبات کا جواب ہمیشہ منفی اندازمیں ہی دیا ۔کانگریس اورہندوئوں کا یہ منفی رویہ 1937ء کے انتخابات کے بعد اور شدت اختیار کرگیا۔انتخابات سے قبل قوی امید تھی کہ انتخابات کے بعد کانگریس اورمسلم لیگ میں مفاہمت ہوجائے گی اوردونوں جماعتیں مل کرمخلوط وزارتیں قائم کریں گی۔ بہرحال انتخابات میں کانگریس کو غیر متوقع کامیابی حاصل ہوئی اور ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے پانچ صوبوں میں اس کے ارکان اکثریت میں منتخب ہوئے جبکہ چھوٹے صوبے میں وہ سب سے بڑی پارتی تھی۔

اس غیر متوقع کامیابی کے نشے میں کانگریس نے سوچاکہ کیوں نہ دوسری تمام پارٹیوں کو اپنے اندر ضم کرلیاجائے اوراس طرح ہندوستان کی واحد سیاسی جماعت بن جائے ۔اسی انداز فکر کے نتیجہ میں اس نے مخلوط وزارتوں کے بارے میں مسلم لیگ کی پیش کیش کو بھی ٹھکرادیا او رجن ہندواکثر یتی صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں وہاں مسلمانوں کو انکے حقوق سے بری طرح محروم کردیا۔نہ صرف یہ بلکہ ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت یکے بعد دیگرے مسلم کش اقدامات کئے ۔ان میں سے چند یہ تھے ۔1بندے ماترم کو قومی ترانہ کی حیثیت دینا۔2۔تمام سرکاری عمارتوں پر کانگریس کے پرچم کو قومی پرچم کی حیثیت سے لہرانا۔3۔اردو کی جگہ ہندی زبان۔4۔سی پی میں دویامندراسکیم کا اجرا ۔یہ اسکیم ہندو اساطیری اصولوں پر مبنی تھی۔5۔گائے کے ذبح پر پابندی۔6۔ملازمتوں میں مسلمانوں کو ان کے مخصوص اورمقررہ حقوق سے محروم کرنا۔7۔ہندو مسلم فسادات میں ہندوئوں کی طرف داری اور عدالتوں میں مسلمانوں کے لیے انصاف کے حصول میں مداخلت ۔
بہرحال اسلامیان ہند اور قائداعظم ؒکی خوشی قسمتی تھی کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر کانگریس نے ہندو اکثریتی صوبوں میں ہر جگہ غیر کانگیریسی جماعتوں اورگروپوں کو اورخصوصا ًمسلم جماعتوں ،نیز مسلم لیگ کو دورکرنے اوراپنے اندر ضم کرنے کی پالیسی اختیارکی۔یہ حقیقت بھی اب ان پر عیاں ہوگئی تھی کہ مسلم اکثریتی صوبوں (یعنی پنجاب ،خیبر پختونخوا ، سندھ،بنگال)میں تو مخلوط حکومتیں قائم کرانے کی کوششیں اس بہانے کی جارہی تھیں کہ ایسی حکومتوں کے قیام سے ملک کی کثیر القومی حیثیت نمایاں ہوسکتی ہے جبکہ اس کے برعکس ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگریس ایک جماعتی حکومت بنانے پر مصر تھی حالانکہ اس کا یہ اصرار برصغیر کے سیاسی حقائق کے قطعی منافی تھا۔
تین مہینوں میں مسلم لیگ کی مقبولیت
مسلمانوں کوایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی غرض سے حضرت قائداعظمؒ نے جن انتھک کوششوں کا آغاز 1934سے کیاتھا ۔ان کی کامیاب تکمیل ایک طرح سے مسلم لیگ کے اجلاس لکھنو 1937ء میں ہوئی۔ اجلاس لکھنو نے مسلم ہند کو ایک ایسے جوش وجذبہ سے سرشارکردیا جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی اس اجلاس کے نتائج بھی فوری طور پر سامنے آئے صرف تین ماہ بعد ہی صوبہ جات متحدہ(یوپی)میں لیگ کی تقریباََنوے نئی شاخیں قائم ہوئیں اورایک لاکھ نئے رکن بنے ۔سرسکندر حیات خان نے لکھنو سے لاہور واپس پہنچنے پر قائداعظمؒ کو لکھا’’ مسلم لیگ کی رکنیت سازی کی مہم تیزی سے جاری ہے اورہمیں توقع ہے کہ بہت جلد صوبہ بھر میں ضلعی شاخیں قائم ہوجائیں گی ۔میں نے تمام مسلم یونینسٹ ارکان کوہدایت کردی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں لیگ کی رکنیت سازی شروع کر دیں‘‘۔

محمد علی جناحؒ کی حکمت عملی ،صبر وتحمل ،اولوالعزمی اورتحریک بالآخر کامیاب ہورہی تھی ان کی قیادت میں مسلم لیگ نے جو حیرت انگیز ترقی کی اسکا اندازہ 1937کے بعد اجلاسوں میں نہ صرف کثیرتعداد میں وفود کی شرکت بلکہ ارکان کی تعداد سے بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔193 2کا اجلاس کو رم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی کرناپڑاتھا پھر 1931میں کورم کے لئے تعدادپچھتر سے کم کرکے پچاس کر دی گئی تھی لیکن اپریل 1932ء میں مندوبین کی تعداد دوسو ہوگئی ۔صرف اٹھارہ ماہ بعد اکتوبر 1937ء میں اجلاس لکھنو کے موقع پر یہ تعداد دوہزار تک پہنچ گئی۔لکھنو کے پنڈال میں پانچ ہزار نشستو ں کی گنجائش رکھی گئی تھی کلکتہ کے خصوصی اجلاس میں منعقدہ اپریل1938ء میں پندرہزار اورلاہور 1940ء میں ساٹھ ہزار سے زیادہ نشستوں کا اہتمام کرناپڑا ۔جبکہ اس اجلا س میں توقع سے زیادہ لوگ شریک ہوئے ۔ٹائمز آف انڈیاکے نامہ نگار کے اندازہ کے مطابق اس اجلاس میں شریک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی ۔اس اجلاس کو اسلامیان ہند کا نمائندہ ترین اجلاس قراردیاگیا۔
اسی طرح مسلم لیگ کے ارکان کی مجموعی تعداد میں جو 1937ء میں 1333تھی۔ حیران کن اضافہ ہوامدراس میں جہاں مسلمانوں کی آبادی صرف چھ فیصد تھی 1941میںرکنیت ایک لاکھ بارہ ہزار اٹھہتر تک پہنچ گئی۔1944میں بنگال میں ارکان کی تعداد ساڑھے پانچ لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی ۔اس صوبہ میں کانگریس سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کو اتنی تعداد کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی ۔اسی سال 1943-44 ء سندھ میں مسلم لیگ کے ارکان کی تعداد تین لاکھ یعنی صوبہ کی بالغ مرد آبادی کا 25فیصد تھی ۔ اجلاس لکھنوکے بعد مسلم لیگ کی روزافزوں قوت اورمقبولیت کا اندازہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھی ہوتاہے ۔یکم جنوری 1938ء اور12ستمبر 1942ء کے درمیانی عرصے میں مسلم لیگ نے 56مسلم نشستوں میں 46نشستیں حاصل کیں یعنی 82 فیصد اس کے برعکس کانگریس نے صرف تین یعنی پانچ فیصد اور آزاد امیدواروںنے سات نشستیں حاصل کیں۔مسلم لیگ کی قوت ومقبولیت کا ایک اورثبوت یہ ہے کہ قائداعظمؒ نے جب 22 دسمبر 1939ء کو یعنی کانگریس راج کے ظلم وجبر اوراستبداد سے چھٹکارا حاصل ہونے پر یوم نجات منانے کی اپیل کی تو پورے برصغیر میں مسلمانوں نے بڑے والہانہ انداز میں قائداعظمؒ کی آواز پر لبیک کہا۔
مسلم قومیت کا فروغ
1939کے اواخر میں جب کانگریسی وزارتیں وائسرائے کے اعلان جنگ کے سوال پر مستعفی ہوگئیں تو مسلمانوں کو اپنے شعور ،فکر اوراذہان کو ٹٹولنے کا موقع ملا ،تاکہ وہ اپنی دیرینہ مگر خفیہ امنگوں کا ایک سیاسی پروگرام اورنصب العین کی شکل میں مرتب کرکے دوٹوک اور بے دھڑک اعلان کر سکیں۔ وہ نہ صرف مغوی اورلغوی اعتبار سے بلکہ بین الاقوامی اصولوں اورمعیار کے مطابق نہ صرف ایک الگ قوم کہلانے کے مستحق ہیں بلکہ درحقیقت وہ ایک قوم ہیں۔یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ مسلمانوں میں نہ صرف ایک قوم کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا عزم صمیم پیدا ہوچکا تھا بلکہ اس لئے بھی کہ قدرت نے ان کو ایک ایسے خطے سے بھی نوازا تھا جسے وہ اپنا معاشرتی ،ثقافتی اورقومی وطن بناسکتے تھے اورجہاں وہ اپنے اصولوں کی بنیاد پر ایک حکومت قائم کرسکتے تھے ۔
ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی جانب سے علیحدہ قومیت کا یہ مثبت اوردوٹوک دعویٰ بہت موثر اوردیرپا ثابت ہوا وہ گر وہ جو کل تک خودکو ایک اقلیت تصور کرتاتھا اورکاغذی تحفظات کا طلب گار تھا ،وہ اب ایک قومیت کی شکل اختیارکرگیا ۔ایک ایسی قومیت جو دوسروں سے منفرد تھی اورجو برصغیر میں اپنے لئے ایک خودمختار مملکت کے قیام کو اپنا حق سمجھتی تھی۔اس کو قائم کرنیکی بھرپور صلاحیت اورطاقت رکھتی تھی۔ حضرت قائداعظمؒ نے الگ مسلم قومی تشخص کی اس انداز میں توضیح اورتشریح کے بعد ،مسلم لیگ کو مسلم اکثریتی صوبوں میں ایک مسلم مملکت کے قیام پر رضامند کرلیا۔چنانچہ قائداعظمؒ کی زیرقیادت مسلم لیگ نے اجلاس لاہور منعقدہ 1940ء میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین قراردیا اوریہی نصب العین بعد میں مطالبہ پاکستان کے نام سے مشہور ہوا۔اجلاس لاہور میں علیحدہ وطن کے مطالبہ پرمبنی قرارداد بنگال کے وزیراعلیٰ اے کے فضل الحق نے پیش کی تھی جبکہ اسکی تائید چوہدری خلیق الزمان ،مولانا ظفرعلی خان ،حاجی سرعبداللہ ہارون ،مولانا عبدالحامدبدایونی،قاضی محمد عیٰسی ،بیگم مولانا محمد علی جوہر،آئی آئی چند ریگر نے کی۔ قائد اعظمؒ نے کہا ،
’’آج ہندوانڈیا اورمسلم انڈیا ایک دوسرے سے اس طرح جد اہوگئے ہیں کہ اب وہ کبھی متحد نہیں ہو سکیں گے‘‘۔اگرچہ یہ پہلاموقع تھا جب اسلامیان ہند نے اتنے واضح اور مد لل انداز میں اپنی منفرد اور علیحدہ قومیت کا نہ صرف اعلان اوردعویٰ کیا بلکہ برصغیر میں ایک علیحدہ مسلم وطن کی تشکیل پر بھی زوردیا ۔ مسلم ہند کی تاریخ کے بغور مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ الگ مسلم قومیت کا تصور مسلم ہمیشہ ایک مرکزی حیثیت کا حامل رہاہے ۔ محمد علی جناحؒ کا شدید ردعمل ان سب عوامل اورمحرکات کے پس پردہ داراصل مسلم تشخض اورجداگانہ قومیت کا ہی تصورکار فرماتھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں