وطن نیوز انٹر نیشنل

اس مرتبہ بھی جرمنی میں عام انتخابات 26 ستمبر 2021ء کو بخیرو عافیت پر سکون ماحول میں انجام پائے.کوئی ہنگامہ یا گڑ بڑھ کا واقعہ پیش نہیں آیا،

جرمنی کی ڈائری (ستمبر )
از : افتخار احمد جرمنی
جرمنی میں عام انتخابات 26 ستمبر بروز اتوار منعقد ہوئے حسب معمول اس بار بھی نہ کوئی شور شرابہ اور نہ ہی کوئی ہنگامہ برپا ہوا ، نہ سڑکوں گلیوں میں نعروں کی گونج سنائی دی نہ ہی کہیں گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور نہ ہی آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کی آوازیں سنائی دیں سٹریٹ لائٹ کے کھمبوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی تصاویر پر مشتمل چھوٹے پوسٹر چسپاں تھے جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ پارلیمنٹ میں اکثریت پروفیسر ڈاکٹر صاحبان ہی کی ہو گی شہروں اور قصبوں میں چھوٹے چھوٹے ہالوں میں کارنر میٹنگ اور بذریعہ پوسٹ اشتہاری مہم پر ہی اکتفا کیا گیا 2005 ء میں انتخابات میں مشینوں کا استعمال کیا گیا تھا جس کی ناکامی کے بعد ایک عدالتی فیصلے نے اس پر آئندہ کے لئے پابندی عائد کردی تھی لہذا اس بار بھی عام پیپر پر بال پوائنٹ سے کراس کر کے ووٹ کا حق استعمال کیاگیا ووٹ کے استعمال کے بعد دہشتگردوں کی طرح ہاتھ کے انگوٹھے پر سیاہی سے نشان لگانے کی روایت یہاں نہیں ہے پولنگ اسٹیشنز پر کوئی خاص گہما گہمی نظر نہیں آئی معمولی عملہ موجود تھا لوگ خاموشی سے ووٹ کاسٹ کرتے اور باہر نکل جاتے پولنگ کا وقت ختم ہونے کے ایک گھنٹے بعد جو رزلٹ سامنے آئے وہی آخری وقت مستند قرار پائے ، کوئی دھاندلی کے الزام نہیں لگے کہیں سے عملہ غائب نہیں ہوا کہیں بجلی بند ہونے کی شکایت سامنے نہیں آئی نہ پولیس نہ رینجرز نہ ” بڑے بھائی ” کہیں نظر آئے انتخابات کے نتیجے میں آہنی خاتون چانسلر انجیلا میرکل کا سولہ سالہ دور حکومت اختتام پذیر ہوا ۔انجیلا میرکل جب 2005ء میں چانسلر منتخب ہوئیں تو جرمنی مرد بیمار تھا بیروزگاری کی شرح گیارہ فیصد تھی جو آج کرونا کے باوجود چھ فیصد ہے وہ جرمنی کو معاشی اور اقتصادی لیڈر بنا کر اس شان سے رخصت ہوئیں کہ وقت سے پہلےہی انہوں نے سیاست سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ۔انجیلا میرکل کی اہم میراث یورو کرنسی کو بچانا اور 2008ء کے مالی بحران سے نبرو آزما ہونا تھا انہوں نے شام کی خانہ جنگی کے دوران ملک سے فرار ہونے والے لاکھوں پناہ گزینوں کو پناہ دی جس دوران انہیں اسلامو فوبیا کو فروغ دینے والی جماعت اے ایف ڈی کی کھلی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا انجیلا میرکل کی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کبھی نہ بن سکی وہ انہیں غیر سنجیدہ شخصیت قرار دیتی تھیں انہیں فوربز کی جانب سے گزشتہ دس برسوں کے دوران دنیا کی سب سے طاقتور خاتون کا خطاب دیا جاتا رہا ۔نئے انتخابات کے بعد سوشل پارٹی ڈیموکریٹ اکثریت میں آ چکی ہے جبکہ میرکل کی پارٹی دوسرے نمبر پر ، بظاہر یا تو پہلے کی طرح دونوں بڑی جماعتوں کو دوبارہ اتحادی بننا ہو گا یا دونوں کو اپنے اپنے ساتھ کوئی بھی دو چھوٹی جماعتوں کے ساتھ الحاق کرنا پڑے گا اگر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو دوبارہ انتخابات کی طرف جانا ناگزیر ہو گا جس کی سوچ بچار کے لئے ابھی کافی وقت باقی ہے اگر دونوں بڑی جماعتوں کا الحاق دوبارہ ہوتا ہے تو اس بار چانسلر کی زمہ داریاں ایس پی ڈی کے اولاف شولز سنبھالیں گے جن کی جماعت سیٹوں کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے ۔

فرینکفرٹ میں پاکستان
اوورسیز الائنس فورم کی طرف سے ایک خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کے روحِ رواں چوہدری اعجاز حسین پیارا اور معروف کاروباری شخصیت چوہدری مظہر اقبال دیونہ تھے تقریب کا مقصد جرمنی میں مقیم ہونہار طلبہ اور اہم شخصیات کی خدمات کو سراہنا اور ایوارڈ دینا تھا تقریب کی صدارت قونصل جنرل زاہد حسین نے کی جبکہ مہمان خصوصی قومی اسمبلی پاکستان کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری تھے پی او اے ایف کے عہدے داروں کا یہ کہنا تھا کہ اعلیٰ کارکردگی کو بنیاد بنا کر حوصلہ افزائی کا سلسلہ آئندہ ہ بھی جاری رکھا جائے گا بلا شبہ یہ ایک منفرد اور خوبصورت تقریب تھی جس کے لئے میزبان مبارک باد کے مستحق ہیں ۔

پاکستان میں نوجوانوں کے امور کے مشیر عثمان ڈار بھی انہی دنوں جرمنی کے دورے پر پہنچے ان کا دورہ پی ٹی آئی کے یوتھ ونگ کو مضبوط متحرک اور منظم کرنے کے لئے تھا ۔
عثمان ڈار نے جتنا وقت جرمنی میں گزارا نہایت متحرک اور سادگی سے گزارا امور نوجوانان کے مشیر کی حیثیت سے وہ سوٹ بوٹ سے بے نیاز عام نوجوانوں کے لباس میں ملبوس نظر آئے مسکراہٹ ان کی پہچان بنی جو پورے دورے میں ان کے چہرے پر عیاں رہی ۔عثمان ڈار نے قونصلیٹ کا دورہ بھی کیا جہاں قونصل جنرل زاہد حسین اور ہیڈ آف چانسری شیعب منصور نے ان کا استقبال کیا اس موقع پر شیراز گیلانی اور پی ٹی آئی کے عہدے دار رانا وسیم بھی موجود تھے ملاقات میں اوور سیز پاکستانیوں کے مسائل پر گفتگو کی گئی ۔

دنیا بھر کے کروڑوں
چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والے لیجنڈری فنکار عمر شریف مورخہ دو اکتوبر کو جرمنی کے شہر نورمبرگ کے ہسپتال میں انتقال کرگئے،انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ کراچی سے بغرض علاج ائر ایمبولینس پر امریکہ جانے کے لئے سوار ہوئے راستے میں ان کے پہلے پڑاؤ نورمبرگ( جرمنی ) میں ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور انہیں مقامی ہسپتال میں داخل کرنا پڑا ان کی اہلیہ غزل زیریں جو ان کی ہمسفر تھیں کو جرمنی کا ویزہ نہ ہونے کے باعث چند گھنٹے پولیس اسٹیشن میں گزارنے پڑے معمول کی کارروائی کے بعد انہیں دستاویز فراہم کر دی گئیں سفیر پاکستان ڈاکٹر محمد فیصل کی ہدایت پر قونصل جنرل زاہد حسین جو وہاں سے اڑھائی سو کیلو میٹر کے فاصلے پر تھے نیورمبرگ پہنچے جرمنی کے طریقہ کار کے مطابق مریض کی بیماری کی صورتحال صرف ان کی وہاں موجود اہلیہ کو ہی دی جانی تھیں لہذا قونصل جنرل صاحب کو بھی غزل زیریں کی وساطت سے عمر شریف کی صحت بارے صورتحال کا پتہ چلا انہوں نے عمر شریف کی اہلیہ کو سفارت خانہ پاکستان اور قونصلیٹ کی طرف سے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی ایک روز بعد وہ پھر ان کے پاس پہنچے تاکہ تازہ صورتحال کا علم ہو سکے مگر آج صبح اس خبر نے عمر شریف کے چاہنے والوں پر بجلیاں گرا دیں کہ وہ مالک حقیقی سے جا ملے ۔ گو کہ ہر شخص نے آخر کار اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے جس نے اسے بھیجا مگر جو غفلتیں اس لیجنڈ فنکار کو بیرون ملک بھیجنے کے دوران حکومتی سطح پر سامنے آئیں وہ قابل شرم ہیں اگر بروقت اقدامات اٹھا لئے جاتے تو شاید صورتحال مختلف ہوتی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں