وطن نیوز انٹر نیشنل

اقبالؒ کی شاعری میں فنی تنوع بہت زیادہ ہے

تحریر : انٹرویو:سعید واثق

آ خری مجموعہ کلام’’ ارمغانِ حجاز‘‘ 1938 میں وفات کے چند ماہ بعد شائع ہوا،یہ واحد کتاب ہے جس میں اقبالؒ کا اردو اور فارسی دونوں زبانو ں کا کلام یکجا ہے

اقبالؒ اردواور فارسی دونوں زبانوں کے بڑے شاعر ہیں،ان کی
شاعری کو دونوں زبانوں میں یکجا کر دیکھنا ہی بہتر ہو گا

مثنوی ایک ایسی ہیئت ہے جو ہماری کلاسیکی شاعری میں بہت
استعمال ہوتی رہی ،اقبال ؒنے اِسے فلسفہ اور فکر کیلئے استعمال کیا

اقبالؒ کی شاعری میں بہت زیادہ فنی تنوع ہے، ایک جیسی بحور
اور موضوعات ہوں تو پڑھنے والا اُکتا جاتا ہے

اقبالؒ کا اردو کا کلام ہو یا فارسی کا ،اسے جاننے کے لئے کم از کم فارسی
کا بنیادی علم ہو نا چاہئے ورنہ اقبالؒ کی شاعری کو سمجھنا اتنا سہل نہیں

ماہرِ اقبالیات اور نامور ادیب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا سے خصوصی انٹرویو’’بانگِ درا‘‘میں اقبالؒ کااُردو کا شروع کا اور بعد کا تمام کلام شامل ہے
حضرت علامہ اقبالؒ کی شاعری ہر عہد میں فکرو شعور کا منبع رہی ہے۔اس حوالے سے ماہرینِ اقبالیات ان کے فن کی باریکیوں کو اجاگر کرنے کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہے۔اقبال شناسی آ سان ہنر نہیں تاہم اقبال کے پیغام کو عام قاری تک پہنچانے اور اسے اس کی اہمیت سے
آ گاہ کرنے کی کوششیں ہمیشہ جاری رہیں گی۔وہ بلا مبالغہ اردو اور فارسی کے بڑے شاعر ہیں ۔اقبالؒ جیسا انداز اور مقام کسی کو نصیب نہ ہوا۔ان کی شاعری روح کو بیدار ہی نہیں کرتی دلوں میں ولولہ اور جوش بھی پیدا کرتی ہے۔
اقبال شناسی کی بات کی جائے تودنیا بھر میں ان کے فکر پہ کام کرنے والے عشاق موجود ہیں۔ایسی ہی ایک شخصیت اردو کے نامور شاعر اور ادیب خواجہ ڈاکٹر محمد زکریاہیں۔وہ اردو زبان و ادب کے ماہر، شاعر، محقق، نقاد، ماہرِ اقبالیات اورر اورینٹل کالج لاہور کے سابق پرنسپل ہیں۔استادوں کے استاد ہیں اوراقبال شاسی کے حوالے ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔’’ اقبال کا ادبی مقام‘‘ سمیت متعدد کتب کے مصنف ہیں۔ ۔ حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2011ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
گزشتہ دنوں ان سے ایک تفصیلی نشست ہوئی جس میں اقبالؒ کی شاعری اور اس کے محاسن پہ بات ہوئی۔ان کا فن اور فکر کس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہیں ۔ان کی بحور ،تراکیب اور اسلوب کیسے انہیں دنیا بھر کے شاعروں سے ممتاز کرتی ہیں جانتے ہیں اس انٹرویو میں۔
س۔ڈاکٹر صاحب !اقبالؒ کی شاعری سے آ پ کا تعارف کب ہوا؟
ج۔علامہ اقبالؒ کی شاعری سے میرا لگائو بہت پرانا ہے،آ پ کہہ سکتے ہیں لڑکپن سے۔مجھے ان کی’’ شکوہ‘‘ اور’’ جوابِ شکوہ ‘‘جیسی طویل نظمیں ساتویں آ ٹھویں جماعت میں یاد تھیں۔میں اس سے زیادہ دعویٰ نہیں کرتا کہ اقبالیات کا سنجیدہ قاری ہوں۔میں نے ان کا کلام فنی حوالے سے بار بار سمجھنے کی کو شش کی۔آج بھی کرتا ہوں۔
س۔درست،ہماری رہنمائی فرمائیں اقبال بڑے فلسفی شاعر ہیں ہیں یا شاعر فلسفی؟
ج۔کوئی بھی پڑھنے لکھنے والا خاص طور پر جس کا میڈیم شاعری ہو جب تک فن شاعری پر مہارت نہ رکھتا ہو اس کی شاعری قابل قبول نہیں ہوتی۔۔ادب میں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ لوگ اس شاعری میں دلچسپی لیتے ہیں یا نہیں ۔اگر کوئی شخص لوازمات سے واقف نہ ہو اسے کوئی نہیں پڑھتا۔اقبالؒ ایک بہت بڑے شاعرہیں اور یہ بحث میرے نقطہ نظر کے مطابق فضول ہے کہ وہ شاعر فلسفی تھے کہ فلسفی شاعر۔وہ شاعر بھی بڑے ہیں اور فلسفی بھی بڑے ہیں۔اس میں اول و آ خر کیا ہے ۔؟یہ سب موشگافیاں ہیں اور بیکار بحث ہے۔ان کی جتنی کتابوں کا مطالعہ کریں سامعین ان کے کلام کی لذت سے آ گاہ ہیں ۔اس لئے عرض ہے کہ ان کے تمام کلام سے گزریں ۔ایک سرے سے دوسرے سرے تک جائیں توآ پ کو خود سمجھ آ ئے گی کہ وہ ہر اعتبار سے حیران کن ہیں۔
س۔ اقبال کی شاعری کی ہیئت ،ٹیکنیک اور بحریں،اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟
ج۔اس سوال کا جواب تفصیل طلب ہے
س۔جی سر؟
س۔حضرت علامہ اقبالؒ کی پہلی مطبوعہ کتاب’’ اسرار ِخودی ‘‘ ہے۔دوسری ’’رموزِخودی‘‘، پھر ’’پیام ِمشرق‘‘ اور’’ بانگِ درا‘‘۔پہلے تین فارسی کی کتابیں آ ئیں پھر ایک اردو کی۔پھر دوبارہ فارسی شاعری کی طرف ان کی رغبت ہو گئی۔’’زمورِ عجم‘‘ ،’’گلشنِ رازِجدید‘‘ اور اسی میں ان کی کچھ اور مثنویاں بھی شامل ہیں جیسے’’ بندگی نامہ‘‘ وغیرہ۔ان کے بعد ’’جاوید نامہ ‘‘ہے جوان کی قابلِ فخر کتاب ہے جس پہ وہ خود بھی فخر کرتے تھے ،یہ 1932 میں آ ئی اور اس کے بعد’’ بالِ جبریل‘‘ 1935 میں شائع ہوئی۔پھر ایک اور فارسی کتاب’’ پس چہ بایدکرد‘‘ 1936 میں اوراس کے بعد اسی سال’’ ضربِ کلیم ‘‘ آ ئی۔ آ خری مجموعہ کلام’’ ارمغانِ حجاز‘‘ 1938 میں ان کی وفات کے چند ماہ بعد شائع ہوا۔یہ واحد کتاب ہے جس میں ان کا اردو اور فارسی دونوں زبانو ں کا کلام یکجا ہے۔
س۔تو اِس ارتقائی عمل کے حوالے سے آ پ کیا کہیں گے؟
ج۔’’اسرارِ خودی‘‘ اور’’رموزِ خودی‘‘ سے ایک منٹ کے لئے قطع نظر کریں تو’’ پیامِ مشرق‘‘،’’ اورزبورِ عجم‘‘۔۔ اور ان کے بیچ میں’’ بانگِ درا‘‘۔۔ دو فارسی مجموعے ہیں اور درمیان میں’’ بانگِ درا‘‘۔۔’’بانگ درا‘‘میں اُ ن کااردو کا شروع کا اور بعد کا تمام کلام شامل ہے۔اس کے متوازی لکھا جانے والا بھی کلام بھی ہے اور بعد کابھی ۔’’بانگ درا ‘‘میں جو کچھ ہے اسے فکری اور خاص طور پر فنی اعتبار سے دیکھیں تو ’’پیام ِمشرق ‘‘اور’’ زبورِ عجم ‘‘میں جو ہیئت ،ٹیکنیک اور بحریں استعمال کی گئی ہیں وہ سب اردو کے روپ میں دیکھنا چاہیں تو ’’بانگِ درا ‘‘میں موجود ہیں ۔ا س کے بعد ’’گلشنِ رازِ جدید‘‘،’’جاوید نامہ‘‘ اور’’پس چہ باید کرد ‘‘اُن کی فارسی کی کتب ہیں ۔۔ان کا تقابل اگر ’’بالِ جبریل‘‘ اور ’’ضربِ کلیم ‘‘سے کریں تو موضوعات کے حوالے سے یکسانیت نظر
آ تی ہے۔اس طرح اقبالؒ کی شاعری کو ا ردو اور فارسی میں یکجا کر دیکھنا ہی بہتر ہو گا۔اس لئے یہ کہا جاتا ہے کہ اقبالؒ اردواور فارسی دونوں زبانوں کے بڑے شاعر ہیں۔۔ان کی شاعری کو اردو اور فارسی کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔۔ اور کرنامناسب بھی نہیں ۔یہ ایک ارتقا ئی عمل ہے جو اردو سے شروع ہوتا ہے اور فارسی تک چلتا ہے۔اور یہ سلسلہ ان کے انتقال تک جاری رہتا ہے۔
س۔مطلب یہ کہ اقبال ؒ کو جاننے کیلئے فارسی سے واقفیت ضروری ہے؟
ج۔دیکھئے! اقبالؒ کی شاعری کو سمجھنا اتنا سہل نہیں ۔اقبالؒ کا اردو کا کلام ہو یا فارسی کا ،اسے جاننے کے لئے کم از کم فارسی کا بنیادی علم ہو نا چاہئے ورنہ اقبالؒ کی شاعری کو سمجھنا اتنا سہل نہیں ۔یہاں یہ بھی بتا دوں کہ اقبالؒ کا کلام فارسی کے دیگر شعرا کے مقابلے میں آ سان ہے۔۔اس میںاسالیب کی خوبصورتی اس قدر دلکش ہے کہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔۔پھر بھی فارسی زبان اور قواعد کا علم ہو تو شاعری کی تحسین میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
س۔اقبالؒ کی شاعری میں تنوع کی کیا وجوہات ہیں ؟
ج۔یہ موضوع بہت بڑا ہے۔اقبالؒ کی شاعری میں بہت زیادہ فنی تنوع ہے۔۔ ایک جیسی بحور اور موضوعات ہوں تو پڑھنے والا اُکتا جاتا ہے یہاں مجھے برائون یاد آ گئے۔انہوں نے فارسی ادب کی تاریخ لکھی۔۔فردوسی جیسے بڑے ایرانی شاعر کے متعلق لکھا کہ انہیں پڑھ کر monotony یکسانیت کا احساس ہوتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ مغرب میں بھی انہی کی طرح شعرا نے طویل نظمیں لکھیں ۔کیا اُن میں یکسانیت کا احساس نہیں ہوتا۔وہاں بھی کلاسیکی شاعری میں رواج تھا کہ جس بحر میں آ پ آ غاز کرتے ہیں وہ آ خر تک چلتی ہے۔ ہماری کلاسیکی شاعری میں بھی یہ نہیں ہو سکتا کہ آ پ جس بحر میں آ غاز کریں اسے چھوڑ دیں ۔ اگرچہ اقبال نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں یہ کیا ہے
س۔یکسانیت کے توڑ اورتنوع کے لئے اقبالؒ نے مختلف ہیئتیں استعمال کیں؟
ج۔جی بالکل!سب سے پہلے میں مثنوی کی ہیئت پہ بات کروں گا۔ یہ بہت پرانی ہے ۔اقبالؒ کے ہاں سب سے زیادہ یہی ہیئت استعمال ہوئی ہے۔پوری کی پوری کتابیں ہیں اور چھوٹی چھوٹی نظمیں بھی اس ہیئت میں لکھی گئی ہیں۔ وہ آ پ کو ’’بانگِ درا‘‘’’پیام ِمشرق‘‘ اور’’زبورِ عجم‘‘ میں یکساں طور پر نظر آ ئیں گی۔
س۔مثنوی کو زیادہ استعمال کرنے کی وجہ؟
ج۔مثنوی ایک ایسی ہیئت ہے جو ہماری کلاسیکی شاعری میں بہت استعمال ہوتی رہی ہے۔یہ شاعری میں قصے کہانیوں کو بیان کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتی تھی۔۔اقبال ؒنے اِسے فلسفہ اور فکر کیلئے استعمال کیا۔اقبال ؒنے یہ ہیئت بہت مہارت سے استعمال کی ۔ان میں اوردیگر شعرا میں بڑا فرق ہے۔۔فارسی میں مثنوی کی روایت بہت مضبوط ہے۔۔ اس میں ایک طرف ’’شاہنامہ فردوسی‘‘ ہے تو دوسری جانب’’ مثنوی مولانا رومؒ ‘‘ہے،یہ بڑی مثالیں ہیں ۔۔ ان کے بعد بھی شعرا کی ایک طویل فہرست ہے۔۔۔لیکن اس روایت کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بحر ایک ہے تو پوری کتاب میں بھی یکسانیت ہے ۔شاعر اس میں طرح طرح سے دلچسپی پیدا کرتا ہے۔ ہیئت میں آ وازوں کی تکرار ہو یا کچھ بھی، مثنوی کے لئے ضروری ہے مصرعہ بہت ہموار اور رواں ہو۔اقبالؒ کی مثنویوں کا مطالعہ کیا جائے تو پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ کتنی روانی سے اشعار اور مصرعے بنائے گئے۔کس طرح باہم مربوط ہیں اور کتنی سہولت سے اس ہیئت کا استعمال کیا۔
س۔اقبالؒ کی فارسی شاعری ہندوستان کے دیگر شعرا سے تو آ سان ہے؟
ج۔درست کہا!اقبال کی فارسی شاعری ہندوستان کے دیگر فارسی شعرا سے آ سان ہے۔غالب کے مقابلے میں بھی آ سان ہے۔غالب کی فارسی بہت مشکل ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ غالب نے عربی کے مروجہ الفاظ فارسی سے خارج کرنے کی کوشش کی۔ اور خالص فارسی کے پرانے الفاظ استعمال کی بھی کوشش کی۔اس لئے ان کی شاعری میں دقت محسوس ہوتی ہے۔کیونکہ یہ رائج الفاظ نہیں ۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ غالب بہت بڑا شاعر ہے لیکن ایران میں غالب کو کم لوگ جانتے ہیں اس لئے کہ ان کا فارسی کلام ایرانیوں کے مزاج کے مطابق نہیں ۔اس کے مقابلے میں اقبالؒ وہاں بہت مقبول ہیں ۔ان کا اسلوب ایرانیوں کے لئے قابلِ قبول ہے۔میں نے ا یران کے بڑے بڑے سکالرز کے لیکچر سنے، انہیں اقبالؒ کی مثنویوں میں سے چالیس چالیس پچاس پچاس اشعار زبانی یاد ہوتے ہیں۔یہ دلچسپی کے بغیر ممکن نہیں ۔
س۔اس تناظر میں آ پ ’’جاوید نامہ‘‘ کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ج۔’’جاوید نامہ‘‘ میں مثنوی کی ہیئت کی بات کی جائے تواقبالؒ نے اس میں ایک مکمل ڈرامائی کیفیت پیدا کی۔۔یہ کائنات ایک ڈرامہ ہے۔۔مصرعوں میں باکمال پختگی ہے۔پہلا شعر ہی توجہ کھینچ لیتا ہے اور اس کا سحر آ خر تک جاری رہتا ہے۔ مختلف افراد ہیں،شخصیات ہیں مختلف آ سمان ہیں ،مختلف کیفیات ہیں ۔اس کے لئے غزلیات ہیں ۔ مکالمہ ہے ، منظر نگاری ہے،ڈرامہ ہے۔مثنوی میں جو یکسانیت تھی وہ اس میں یکسر ختم کر دی گئی۔
س۔اقبالؒ کی غزل کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا؟
ج۔ حالانکہ یہ دوسری صنف ہے جو اقبالؒ نے استعمال کی ۔ عام طور پر اقبالؒ کی غزل کا ذکر نہیں کیا جاتا۔اس لئے نہیں کہ ان کی غزل ہماری کلاسیکی غزل سے مختلف ہے۔ان کی غزل اس لحاظ سے دلچسپ اور زبردست ہے کہ انہوں نے غزل میں بھی انقلاب پیدا کیا۔غزل کے اشعار کو ہماری کلاسیکی غزل کے ساتھ ملائیں ۔۔ان کا اسلو ب سب سے منفرد ہے اور فوری پہچانی جاتی ہے اور وہ پرانی غزل میں کھپ نہیں سکتی ۔ اقبال ؒنے اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ اکھڑ اور اَن گھڑ الفاظ استعمال نہ ہوں جو روانی میں حارج ہوتے ہیں ۔غزل میں بہت تجربات ہوئے ہمارے ہاں۔ کلاسیکی غزل کا ایک سٹائل ہے ہے جس میں ترنم اورتغزل پایا جاتا ہے۔اقبال نے غزل کی فضا کو کلاسیکی روایات سے الگ نہیں کیا اور ان کے ہاں انحراف نہیں ملتا۔ا گرچہ مشکل الفاظ اور تراکیب بھی ہیں لیکن وہ الفاظ اور تراکیب اپنی بحور کے ساتھ اس قدر ہم آ ہنگ ہو کر استعمال کرتے ہیں کہ بالکل احساس نہیں ہوتا کہ آ پ کوئی خراب یا ناقص چیز پڑھ رہے ہیں ۔ غزل گوئی میں بھی اقبالؒ نے انقلاب برپا کیا ہے ۔ خاص طور پر ان کی اردو غزلیں جو’’ بالِ جبریل‘‘ میں شامل ہیں ۔ فارسی میں ’’پیامِ مشرق‘‘ میں اور اس سے زیادہ’’ زبور ِعجم‘‘ میں شامل ہیں ۔یہ اعلیٰ درجے کی غزلیات ہیں ۔
س۔ اوراقبالؒ کی نظموں کی ہیئت؟
ج۔اقبالؒ کی نظمیں مختصر بھی ہیں اور طویل بھی ،یہ کلاسیکی ہیئت میں بھی لکھی گئی ہیں جس میں زیادہ مثنوی ہی ہے۔۔۔ مثنوی کا اگر ترتیب قوافی ہو ،وہ دس پندرہ بیس شعروں میں لکھی جائے ،اس پہ عنوان لگا دیا جائے تو وہ نظم ہو جاتی ہے۔اس طرح قطعہ ہے۔یہ مشہور ہے کہ قطعہ دو اشعار پہ مشتمل ہوتا ہے۔کلاسیکی قطعہ کم از کم دو اور اس سے زیادہ اشعار پہ مشتمل ہو تا ہے ۔اقبالؒ کے ہاں قطعات کی بہترین مثال
’’ضرب ِکلیم ‘‘میں ہے۔نظموں میں آ پ کوہیئت اور موضوعات کا تنوع ملے گا۔ اقبالؒ کا فکر ہی اس طرح کا ہے ،ایک مرکزی نقطے کے گرد اُن کے موضوعات گھومتے ہیں۔پڑھنے والا مو ضوعات میں اس حد تک گم ہو جاتا ہے کہ وہ بھول جاتا ہے کہ وہ نظم میں کن تجربات سے گزر رہا ہے۔
س۔اقبالؒ نے ان ہیتوں میں بھی تجربات کئے جن پہ دیگر شعرا نے دھیان نہیں دیا؟
ج۔ جی ہاں!مثمت اور مستزاد۔۔ان ہیئتوں میں کم شعرا نے لکھا ۔لمبی نظموں میں سب سے زیادہ جس صنف کا استعمال کیا گیاوہ ترکیب بند میں ہے ۔’’خضر ِراہ‘‘،’’ شمع اور شاعر‘‘،’’مسجد ِقرطبہ‘‘، ’’طلوعِ اسلام ‘‘ اور’’ ذوق و شوق‘‘، یہ ترکیب بند ہیں ۔۔۔اس کو اقبالؒ نے اس قدر مربوط رکھا ہے اس کی ترتیب اور ربط پہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ اس شخص کو نظم نگاری پہ کس قدر عبور حاصل ہے ۔ ’’ساقی نامہ‘‘ اور ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ جیسی ان کی مقبول نظمیں مثنوی میں لکھی گئیں۔
س۔پھر اقبال ؒنے نئے تجربات بھی بہت کئے؟
ج۔ اقبالؒ کے ہاں فارسی اور اردو دونوں میں نت نئے تجربات سامنے آ تے ہیں ۔یہ کسی دوسرے شاعر کے ہاں نہیں ۔بہت سی ہیئتیں ہیں جو انہوں نے خود تراشی ہیں ۔خود پہلی بار ہمارے سامنے لائے۔
س۔ایک اور صنف دو بیتی کا استعمال بھی کیا؟
ج۔دو بیتیاں اردو میں ’’بالِ جبریل‘‘ا ور ا’’رمغانِ حجاز‘‘ میں فارسی میں استعمال ہوئیں۔یہ ایک صنف ہے رباعی کی شکل میں ۔ جس کے لئے خاص وزن کی ضرورت ہوتی ہے۔۔
س۔ کیا اقبالؒ کا بحور کے سلسلے میں کچھ خاص مزاج تھا؟
ج۔اس سلسلے میں اقبال ہی نہیں ہر شاعر کا مزاج ہوتا ہے۔ایک بحر ایک شاعر کو بہت پسند ہے تو دوسرے کو نا پسند۔۔جیسے بحرمتقارب۔اس میں میر کی دو سو غزلیں ہیں اور غالب کی ایک بھی نہیں ۔یہ شاعر کا احساس اور مزاج ہے۔اقبال ؒکو وہ بحر پسند ہے جس میں فارسی شاعر بابا طاہر عریاں نے دو دو اشعار والی چیزیں لکھی ہیں ۔ اس لئے رباعی کا وزن ذرا مختلف ہے ۔ اس لئے لوگ کہتے ہیں ان کو رباعی نہیں دو بیتی کہنا چاہئے۔ یہ صرف ٹیکنیک کی بات ہے ۔وہی بات ہے کہ پھول کو کسی بھی نام سے پکاریں وہ پھول ہی رہے گا ۔ہے تو وہ اعلیٰ درجے کی شاعری ،دو بیتی کہیں۔۔رباعی کہیں ۔اس سے فرق نہیں پڑتا۔خود اقبالؒ کے سامنے بھی اعتراض کیا کہ آ پ اسے رباعی کیوں کہتے ہیں ۔ انہوں نے جواب دیا کہ بابا طاہر عریاں نے اسی وزن میں رباعی لکھی۔خود با با طاہر کی رباعیاں یا دو بیتیاں مختلف وزن میں ہیں اس لئے ایرانی نقاد اور محقق اسے رباعی کی بجائے دو بیتی کہتے ہیں ۔یہ اقبالؒ کے ہاں اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔اردو میں ’’ بال ِجبریل ‘‘اور فارسی میں ’’ارمغانِ حجاز‘‘ میں ہیں
س۔اقبالؒ کی ڈرامائی اور مکالماتی نظموں کے متعلق کیا کہیں گے؟
ج۔ وہ بھی بہت ہیں۔۔اردو کی کلاسیکی شاعری میں یہ روایت نہیں ہے کہ نظم ایک سے زیادہ بحروں میں لکھی جائے۔۔یہ صرف اقبالؒ کے ہاں ہے۔۔انہوں نے بعض اوقات ایک موضوع لیا۔۔اور پانچ پانچ ذیلی نظمیں لکھ دیں ، کبھی چار لکھ دیں ۔۔الگ بحروں میں
اسالیب اور ہیئت کا موضوعات سے گہرا تعلق ہوتا ہے ۔یہ الگ الگ ہیئتیں اس لئے استعمال ہوئیں کہ اس میں مختلف لوگوں کے جذبات ہیں ۔ اس کے مطابق بحر تبدیل کی گئی۔۔۔اس میں بڑی فنکاری ہے۔اس کی کی مثالیں اردو اور فارسی دونوں میں ملتی ہیں۔۔ یعنی ایک ہی نظم میں مختلف بحروں کا استعمال۔۔
س۔اقبال ؒنے کینٹو میں بھی لکھا؟
ج۔کینٹو( canto) فارم میں ایزرا پائونڈ نے بہت لکھا ۔ اس کی تعریف یہ ہے کہ یہ بڑی نظم کا ایک بند ہوتا ہے۔وہ اگر انڈیپنڈنٹ ہو اور نظم کے ساتھ شامل ہو کر بھی مفہوم دے تو ان کے مختلف حصوں کو کینٹو کہا جاتا ہے۔ ہم شروع میں سمجھتے تھے کینٹو لمبی بحر کی نظم ہے ۔اقبال کے ہاں کینٹو قسم کی نظمیں بھی بہت ملتی ہیں ۔
س۔ اورمکالماتی نظمیں؟
ج۔اقبال کے ہاں یہ بھی بہت ہیں۔انسان ،انسان سے مکالمہ کرتے ہیں ،پرندے پرندوں کے ساتھ۔انسان خدا سے،خدا انسان سے۔اقبالؒ کی شاعری میں مکالمہ بہت زیادہ ہے ۔ ڈرامہ اور مکالمہ اقبال کی شاعری کے ضروری اجزا ہیں اور ان سے کلام میں بہت دلچسپی پیدا کی گئی ہے ۔
س۔اقبال ؒکے ہاںبحروں کے تنوع کی کیا وجہ ہے؟
ج۔اقبال ؒکے ہاں بحروں کا بہت تنوع ہے ۔ ایک طرف سالم بحریں ہیں،طویل ہیں ۔لمبا مصرع ہے اس کا اپنا مفہوم ہے
مشہورنظم ’’زمانہ‘‘ کا شعر دیکھیں
جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہو گا
یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
س۔اس نظم میں لمبی بحر کیوں استعمال کی؟
ج۔زمانے کے تسلسل کی وجہ سے۔ اقبالؒ بحریں بلا وجہ استعمال نہیں کرتے۔ وہ مفہوم سے وابستہ ہوتی ہیں ۔فکریہ شاعر ی کی بحریں اور طرح کی اور نشاطیہ شاعری کی بحریں اور طرح کی ہیں ۔جس بحر میں عام شعرا کے لئے لکھنا مشکل ہے اقبالؒ نے باکمال ہنرمندی سے اسے اختیار کیا۔اقبال ہیئت اور بحور میں بھی تبدیلی کرتے ہیں،حسبِ ضرورت بحر کا انتخاب کرتے ہیں اور وہیں استعمال کرتے ہیں جہاں ضرورت ہے۔
س۔بحور کے سلسلے میں اقبال ؒکسی سے متاثر ہوئے؟
ج۔ایک ایرانی شاعرتھے ۔غالب کے ہم عصر۔۔قاعانی ۔ان کی خوبی ہے کہ ان کاپورا کلیات رواں دواں بحروں میں ہے۔۔شائد ایران میں کسی کے ہاں نہیں ۔۔جب قاعانی کا کلام ہندوستان میں
آ یا۔غالب تک پہنچا تو غالب بہت متاثر ہوئے تاہم اس وقت ان کی عمر بہت زیادہ ہوچکی تھی اور غالب کی آ خری عمر کی کچھ شاعری پہ
کا عانی کارنگ ملتا ہے۔اقبالؒ کی شاعر ی میں ایک خاص دور ہے جس میں انہوں نے قاعانی کی پیروی کی۔ اس میں ایک لمبی نظم موجود ہے ۔۔وہ ’’طلوعِ اسلام ‘‘ہے ۔یہ بحر اس لئے اختیار کی گئی اس میں جوش ہے ،خوشی کے جذبات ہیں ۔۔اور’’ طلوعِ اسلام‘‘ پہ بات ہو رہی ہو تو یہ سب کچھ درکار ہوتا ہے ۔پھرجہاں اقبالؒ سمجھتے ہیں قا ری آ رام سے آگے بڑھے وہاں ایسی بحور استعمال کیں جو ذرا آ رام سے چلتی ہیں۔
س۔اقبال ؒنے تقلیدسے منع کیا؟
س۔جن چیزوں کو ہم نے چھوڑ دیا اس میں تنقیدبھی شامل ہے۔ہم نے چیزوں کو تنقیدی انداز میں پڑھنا اور پرکھنا چھوڑ دیا۔تقلید سے ہٹتے نہیں۔ دی ری کنسٹرکشن آ ف ریلیجئس تھاٹ کے دیباچے میں اقبالؒ کہتے ہیں ’’میں نے جو توجیہات پیش کی ہیں آ ئندہ اس سے بہتر توجیہات سامنے آئیں گی‘‘
س۔ اقبالؒ کی شاعری کے تناظر میں بتائیں کیاشاعری میں مقصد اور فن ہم آہنگ ہیں کہ نہیں ؟
ج۔ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ہم آ ہنگی سے ہی بڑی سوچ شاعری وجود میں آ تی ہے،موضوع کچھ،الفاظ کچھ ،بحر کہیں لے جائے اور بات شاعر کچھ کرنا چاہے تو اس سے تاثر پیدا نہیں ہو سکتا۔فائن آ رٹس کی دنیا میں کوئی بھی فن تب عروج پہ پہنچتا ہے جب خیال انتہائی مناسب انداز میں پیش کیا گیا ہو۔اس نقطہ نظر سے کسی بھی بڑے شاعر کو دیکھیں تو اس کا فن اور موضوعات ہم آہنگ ہیں ۔ یہ ہم آ ہنگی ہی اُسے بڑا لکھنے والا بناتی ہے۔اقبالؒ کا خودی کا فلسفہ تھا جسے انہوں نے بھر پور انداز میں پیش کیا
س۔اسلوب کی بات کی جائے تو کیا چیز اقبال ؒ کو منفرد بناتی ہے؟
ج۔بڑے شاعر وسیع المطالعہ ہوتے ہیں۔کوئی شخص کتنا ہی اوریجنل ہو اگر صاحبِ مطالعہ نہیں تو وہ بہت جلد تکرار کرنے لگتا ہے ۔اس کا کینوس محدود ہو جاتا ہے ۔اقبال ؒکی اردو شاعری پڑھیں تو اس میں میر ،سودا،اکبر الہ آ بادی ،ا ٓتش، ذوق اور غالب کا پرتو نظر آ تا ہے
کوئی بھی شخص سو فیصد اوریجنل نہیں ہوتا۔ اقبالؒ بار بار تصور ِخودی کی بات کرتے ہیں تو یہ ان کی شاعری کا محورو مرکز ہے ۔یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔۔ آپ فلسفے کی بات کریں تو اس پہ بہت کام ہوا لیکن اس کے تمام بنیادی نظریات کے بیج یونان میں موجود ہیں ۔مطلب کچھ بھی نیا نہیں ۔ایسا نہیں کہ اقبال ؒکے ہاں تکرار نہیں ۔ بس غالب رجحا نات کو دیکھا جاتا ہے۔۔ یہ غالب رجحانات ہی اقبالؒ کو منفرد شاعر بناتے ہیں ہیں ۔ایسا اسلوب اورفضا کسی دوسرے شاعرکے ہاں موجود نہیں۔ کلام اقبال کے دو مصرعے پڑھتے ہیں ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ اوروں سے مختلف ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں